کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 574
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’ومنھم من قال:النھي فیہ للتنزیہ فیکرہ،ولا یحرم،وخالفھم جماعۃ فقالوا:یحرم الخروج منھا لظاھر النھي الثابت في الأحادیث الماضیۃ،وھذا ھو الراجح عند الشافعیۃ وغیرھم،ویؤید ثبوت الوعید علیٰ ذلک فأخرج أحمد و ابن خزیمۃ من حدیث عائشۃ مرفوعا في أثناء حدیث بسند حسن قلت:یا رسول اللّٰه فما الطاعون؟ قال:غدۃ کغدۃ الإبل،المقیم فیھا کالشھید،والفار منھا کالفار من الزحف‘‘[1] انتھیٰ [بعض نے اس نہی کو تنزیہ کے لیے کہا ہے تو وہ اس کو مکروہ کہتے ہیں،حرام نہیں سمجھتے،لیکن دوسرے لوگوں نے کہا:یہ نہی تحریمی ہے اور طاعون سے بھاگنا حرام ہے۔یہی راجح ہے۔شافعیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور سیدہ عائشہ کی حدیث اس کی دلیل ہے،جب میں ہے کہ میں نے پوچھا:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ طاعون کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک غدود اُبھرتی ہے،جیسے اونٹ کی غدود ہے۔اس میں ثابت قدم رہنے والا شہید کی طرح ہے اور اس سے بھاگنے والا ایسا ہے،جیسے میدانِ جنگ سے بھاگنے والا] امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بایں لفظ باب منعقد کیا ہے:’’باب الفرار من الطاعون من الکبائر‘‘ یعنی یہ باب اس بیان میں ہے کہ طاعون سے بھاگنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے،پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔تفسیر روح المعانی (۹/ ۶۹) میں ہے: ’’فمنھم من حرمہ کابن خزیمۃ،فإنہ ترجم في صحیحہ:باب الفرار من الطاعون من الکبائر وأن اللّٰه تعالیٰ تعاقب من وقع منہ ذلک ما لم یعف عنہ،واستدل بحدیث عائشۃ الفرار من الطاعون کالفرار من الزحف،رواہ الإمام أحمد والطبراني وابن عدي وغیرہم،وسندہ حسن‘‘ انتھیٰ [بعض نے طاعون سے بھاگنے کو حرام کہا ہے،مثلاً ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اس پر اس طرح باب باندھا ہے کہ طاعون سے بھاگنا کبیرہ گناہ ہے اور جو اس کا ارتکاب کرے گا،اگر اﷲ تعالیٰ اس کو معاف نہ کرے تو اس کو سزا ہو گی،پھر انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ طاعون سے بھاگنے والا میدانِ جنگ سے بھاگنے والے کی طرح ہے] امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات (ص:۲۹) میں فرماتے ہیں: ’’وگر یختن از موت وبا کبیرہ گناہ است در رنگ فرار یوم زحف و کسے کہ در زمین وبا باصبر بماند و بمیرد از
[1] فتح الباري (۱۰/ ۱۸۸)