کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 57
آخری نصف بہت تکلیف میں گزرا۔رمضان میں بھی یہی کیفیت رہی۔آخر اس مرد درویش نے (جس کی ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھانے میں گزری) ۱۶ شوال ۱۳۵۳ھ بمطابق ۲۲ جنوری ۱۹۳۵ء کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ ان کی نمازِ جنازہ مولانا محمد احمد (صدر مدرس مدرسہ فیض عام مئو) نے پڑھائی۔جنازے میں تمام مسالک فقہی کے لوگوں نے شرکت کی۔جنازے میں شامل لوگوں کی تعداد کاشمار نہیں کیا جا سکتا۔ قاضی اطہر مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس علاقے کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی کے جنازے میں انسانوں کا اتنابڑا ہجوم دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘[1] ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’نمازِ جنازہ پر زائرین کا ہجوم علاقہ بھر میں اپنی نظیر تھا۔بلا تفریق مشرب تمام فرق اسلامیہ شامل تھے۔قصبہ مئو سے جو مبارک پور سے چوتھا ریلوے اسٹیشن ہے،زائرین کی بھری ہوئی ٹرین آئی اور راہ میں کسی اسٹیشن پر نہ رکی کہ مبادا زائرین نماز جنازہ سے رہ جائیں۔‘‘[2] حضرت مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا اور قبر کے سرہانے تاریخ کا کتبہ نصب ہے،جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں: ’’حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب (المتوفی ۱۶ شوال ۱۳۵۳ھ/۱۹۳۵ء)‘‘ اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ،اللّٰهم نور قبرہ ووسع مدخلہ،وأدخلہ الجنۃ الفردوس۔[3]
[1] تذکرہ علماے مبارک پور،(ص:۱۵۶) [2] تراجم علماے حدیث ہند،(ص:۴۰۶) [3] دبستانِ حدیث،(ص:۲۰۵)