کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 567
کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین سیاہ خضاب لگانا جائز نہیں: سوال:سیاہ خضاب کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جواب:سیاہ خضاب کرنا درست و جائز نہیں ہے،جیسا کہ حدیث ابو داود وغیرہ سے واضح ہوتا ہے۔[2] واللّٰه أعلم بالصواب۔حررہ:السید محمد نذیر حسین،عفي عنہ سید محمد نذیر حسین هو الموافق فی الواقع سیاہ خضاب کرنا درست و جائز نہیں ہے۔صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابو قحافہ فتح مکہ کے دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیے گئے اور ان کا سر (بوجہ بالکل سفید ہوجانے بالوں کے) گویا ثغامہ تھا (ثغامہ ایک گھاس ہے،جس کے پھول اور پھل سفید ہوتے ہیں)پس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( اذھبوا بہ إلیٰ بعض نسائہ فلتغیرہ بشییٔ،وجنبوہ عن السواد )) [3] یعنی ان کو لے جاؤ ان کی بعض عورتوں کے پاس کہ ان کے بالوں کو کسی چیز سے متغیر کر دیں اور سیاہ رنگ سے ان کو بچانا۔ یعنی سیاہ خضاب سے ان کو بچانا اور سرخ یا زرد یا کسی اور رنگ کا خصاب کرنا۔طبری اور ابن ابی عاصم نے اس حدیث میں اس قدر اور زیادہ روایت کیا ہے کہ لوگ ابو قحافہ کو لے گئے اور ان کے بالوں میں سرخ خضاب کیا۔[4] صحیح مسلم کی اس حدیث سے سیاہ خضاب کا نادرست ہونا صاف ظاہر ہے۔ سنن ابو داود میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یکون قوم یخضبون في آخر الزمان بالسواد کحواصل الحمام،لا یریحون رائحۃ الجنۃ )) [5] یعنی آخر زمانے میں ایک ایسی قوم ہوگی جو سیاہ خضاب کرے گی،جیسے کبوتر کے سینے سیاہ ہوتے ہیں،سو وہ قوم جنت کی بو نہ پائے گی۔ امام ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ اس کی سند قوی ہے۔[6] ابوداود کی
[1] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۳۶۴) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۲۱۲) [3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۱۰۲) بألفاظ مختلفۃ۔ [4] فتح الباري (۱۰/ ۳۵۵) نیز دیکھیں:المعجم الکبیر (۹/ ۴۱) [5] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۲۱۲) [6] فتح الباري (۶/ ۴۹۹)