کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 566
ایک بال مانگ میں سفید موجود تھے۔جب تیل لگاتے تو ان کا پتا نہ چلتا تھا۔انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سر اور ڈاڑھی کو بہ کثرت تیل لگایا کرتے تھے۔آپ کے کپڑے تیل میں لت پت رہتے۔آپ کنگھی کرنے کو پسند کرتے تھے۔کبھی خود کنگھی کر لیتے،کبھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کر دیتیں ] ان بے چارے دیہاتیوں سے یہ سب باتیں ہو نہیں سکتیں اور بالوں کے سبب سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے،اس لیے ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنی تکلیف کو دور کریں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ بالوں کو نہیں منڈایا ہے،اس وجہ سے کہ آپ کو ضرورت منڈانے کی نہیں تھی،لیکن دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر منڈانے کا حکم دیا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سر نہیں منڈایا ہے،مگر انھوں نے بالوں کو کتروایا تو ضرور ہے،جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔بعض علما کا مضرت اور تکلیف کے وقت بالوں کے منڈانے یا کتروانے سے منع کرنا اور جماعت سے خارج کرنا اور کفارہ لینا تو ان سب باتوں کی کوئی دلیل نہیں ہے،ان باتوں سے ان کو باز آنا چاہیے۔اگر باز نہ آئیں گے تو ضرور گناہ گار ہوں گے۔لوگوں کو چاہیے کہ ایسے عالموں کی باتوں کو ہرگز نہ مانیں اور اپنی تکلیف کو دور کریں،چاہے منڈوا کر یا کتروا کر۔فقط،واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ حررہ:عین الدین مٹیابرجی هو الموافق سر کے بالوں کا رکھنا بلاشبہہ سنت ہے،مگر بلاضرورت بھی اگر کوئی سر منڈوائے یا ترشوائے تو جائز ہے۔جو لوگ سر منڈانے کو ناجائز بتاتے ہیں،ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور جو ثبوت پیش کرتے ہیں،اس سے عدمِ جواز نہیں نکلتا ہے۔امام نووی شرح صحیح مسلم (۱/ ۳۴۲) میں لکھتے ہیں: ’’بعض لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے کہ خارجیوں کی علامت سر منڈانا ہے،سر منڈانے کے مکروہ ہونے پر دلیل لاتے ہیں،حالانکہ یہ قول اس پر دلیل نہیں ہو سکتا،کیونکہ علامت کبھی حرام ہوتی ہے اور کبھی مباح۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کی یہ بھی ایک علامت بیان کی ہے کہ ان میں ایک کالا شخص ہو گا،جس کا ایک بازو عورت کے پستان کے مثل ہوگا۔ظاہر ہے کہ یہ علامت حرام نہیں ہے۔ابو داود میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کا کچھ سر منڈا ہوا تھا،پس آپ نے فرمایا:اس کا کل سر مونڈھو یا کل چھوڑو۔[1] اس حدیث کی سند بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے۔یہ حدیث سر منڈوانے کے جائز ہونے پر صریح دلیل ہے،جس میں کسی تاویل کی گنجایش نہیں ہے۔ہمارے اصحاب (علمائے شافعیہ) نے کہا ہے کہ ہر حال میں سر منڈوانا جائز ہے،لیکن اگر کسی شخص پر بالوں کی خدمت،ان میں تیل ڈالنا،کنگھی کرنا اور صاف رکھنا شاق ہو تو ایسے شخص کو سر منڈانا مستحب ہے اور اگر شاق نہ ہو تو بال رکھنا مستحب ہے۔انتھیٰ کلام النووي مترجما،واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۱۹۵)