کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 565
’’عن علي بن أبي طالب عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( من ترک شعرۃ من جسدہ من جنابۃ،لم یغسلھا،فعل بہ کذا وکذا من النار )) قال علي:فمن ثم عادیت رأسي،وکان یجزہ۔[1] [حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس آدمی کے جسم کا ایک بال بھی غسلِ جنابت میں خشک رہ جائے گا،اس کے ساتھ آگ سے اس طرح اور اس طرح کیا جائے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یہی تو وجہ ہے کہ میں نے اپنے سر سے دشمنی کر رکھی ہے،چنانچہ آپ سر کے بال کتروا دیا کرتے تھے] وفي تلخیص الحبیر:’’وعن علي مرفوعاً:(( من ترک موضع شعرۃ من جنابۃ لم یغسلھا فعل بہ کذا وکذا )) الحدیث،إسنادہ صحیح،فإنہ من روایۃ عطاء بن السائب،وقد سمع منہ حماد قبل اختلاطہ‘‘[2] انتھیٰ [تلخیص الحبیر میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:جس آدمی کے جسم کا ایک بال بھی غسلِ جنات میں خشک رہ جائے گا،اس کے ساتھ آگ سے اس طرح اور اس طرح کیا جائے گا] ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ سوائے حج کے بالوں کا منڈوانا یا کتروانا ضرورت کے وقت جائز ہے،بلکہ جیسے عدمِ ضرورت و مضرت کے وقت بالوں کا رکھنا سنت ہے،اسی طرح وقتِ ضرورت و مضرت کے منڈوانا یا کتروانا سنت ہے۔پس صورتِ مسئولہ میں بالوں کا منڈوانا یا کتروانا بلاشبہہ جائز و درست ہے،بلکہ سنت ہے۔بعض علما کا یہ کہنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے حج کے سر کے بال نہیں منڈوائے،صحیح ہے اور ہم بھی کہتے ہیں کہ بالوں کا رکھنا سنت ہے۔جیسے بالوں کا رکھنا سنت ہے،اسی طرح بالوں کی خدمت کرنا،ان کو صاف رکھنا،ان میں تیل ڈالنا اور کنگھی کرنا بھی سنت ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بالوں کو صاف رکھتے اور کثرت سے تیل لگاتے اور کنگھی کرتے تھے۔ زاد المعاد میں ہے: ’’قال حماد بن سلمۃ عن سماک بن حرب:قیل لجابر بن سمرۃ:أکان في رأس النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم شیب؟ قال:لم یکن في رأسہ شیبا إلا شعرات في مفرق رأسہ،إذا ادھن،وأراھن الدھن۔قال أنس:وکان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یکثر دھن رأسہ ولحیتہ،ویکثر القناع کأن ثوبہ ثوب زیات،وکان یحب الترجل،وکان یرجل نفسہ تارۃ،وترجل عائشۃ تارۃ‘‘[3] انتھیٰ [جابر بن سمرہ سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں سفید بال تھے؟ کہنے لگے:آپ کے سر میں چند
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۴۹) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۵۹۹) [2] التلخیص الحبیر (۱/ ۱۴۲) [3] زاد المعاد (۱/ ۱۶۷)