کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 564
ہوتا ہے اور گرد و غبار کے سبب سے ان کے لمبے لمبے بالوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔وہ لوگ بہ سبب عدمِ فرصت و غربت کے ہمیشہ ان بالوں کو صاف نہیں کر سکتے ہیں۔بعض بعض ایام میں ان کے کھیتوں میں تین چار ہاتھ پانی رہتا ہے اور کھیت کاٹنے کا وقت بھی آجاتا ہے،اس صورت میں وہ لوگ غوطہ مار مار کر کھیت کو کاٹتے ہیں،اس وجہ سے بھی ان کے بالوں کو بہت تکلیف پہنچتی ہے،ان صورتوں میں بالوں کو کتروانا یا منڈوانا جائز ہے یا نہیں ؟ ان دیار کے بعض علما بال کتروانے یا منڈوانے کو منع کرتے اور کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سوائے حج کے سر کے بال کا منڈوانا ثابت نہیں ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باوجود دشمن جاننے کے بھی بالوں کو نہیں منڈوایا ہے،کتروایا ہے۔جو شخص بال منڈواتا ہے یا کترواتا ہے تو اس کو جماعت سے خارج کرتے ہیں،یعنی سلام،کلام و دیگر معاملات سے اس کو روکتے اور کفارہ لیتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کفارہ لینا کیسا ہے اور کفارہ لینے والا کیسا ہے؟ جواب:سر کے بال منڈوانا یا کتروانا ضرورت کے وقت بلاشک و شبہہ درست ہے۔کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے سر کے بال میں بحالتِ احرام اس کثرت سے جوئیں پڑ گئی تھیں کہ ان کے منہ پر گری اور جھڑی پڑتی تھی،اس وجہ سے ان کو بہت تکلیف تھی۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کو سر منڈانے کا حکم فرمایا،حالانکہ وہ حالتِ احرام میں تھے اور حالتِ احرام میں بال منڈانا منع ہے،مگر آپ نے احرام کا خیال نہیں فرمایا،بلکہ ان کی تکلیف اور مضرت کا خیال فرمایا،نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی جعفر کے بالوں کو منڈوایا ہے،اس وجہ سے کہ ان کے سروں میں جوئیں پڑ گئیں تھیں۔[1] کما في زاد المعاد۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اس خیال سے کہ غسلِ جنابت میں کوئی بال خشک نہ رہ جائے،اپنے بالوں کو ترشوایا کرتے تھے۔صحیحین میں ہے: ’’عن کعب بن عجرۃ رضی اللّٰه عنہ قال:حملت إلیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم والقمل یتناثر علیٰ وجھي۔فقال:ما کنتُ أریٰ الوجع بلغ بک ما أریٰ،وفي روایۃ:فأمرہ أن یحلق رأسہ،وأن یطعم فرقا بین ستۃ أو یھدي شاۃ أو یصوم ثلاثۃ أیام‘‘[2] کذا في زاد المعاد۔ [کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا،میرے منہ پر جوئیں چل رہی تھیں، آپ نے فرمایا:مجھے اس کا تصور بھی نہ تھا کہ تجھ کو اتنی تکلیف ہے۔ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ سر منڈا لے اور ایک فرق (پیمانہ) چھے آدمیوں میں کھانا تقسیم کر دے یا ایک بکری کی قربانی دے دے یا تین روزے رکھ لے] سنن ابن ماجہ میں ہے:
[1] زاد المعاد (۴/ ۱۵۴) [2] زاد المعاد (۴/ ۱۴۵) نیز دیکھیں:صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۷۲۲) صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۲۰۱)