کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 560
هو الموافق واضح ہو کہ احادیثِ صحیحہ مرفوعہ سے جو ثابت ہے،وہ یہی ہے کہ ڈاڑھی کو بالکلیہ چھوڑ دینا چاہیے اور اس کے طول و عرض سے کچھ تعرض نہیں کرنا چاہیے۔کسی حدیثِ صحیح مرفوع سے ڈاڑھی کا ترشوانا اور بقدر ایک قبضہ کے رکھنا ثابت نہیں اور جامع ترمذی میں جو یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے عرض و طول سے کچھ لیتے تھے،سو یہ حدیث ضعیف ہے۔حافظ ابن حجر فتح الباری (۲۴/ ۴۹۷) میں لکھتے ہیں: ’’إن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یأخذ من لحیتہ من عرضھا وطولھا۔[1] أخرجہ الترمذي،ونقل عن البخاري أنہ قال في روایۃ عمرو بن ھارون:لا أعلم لہ حدیثا منکرا إلا ھذا۔قال الحافظ:وقد ضعف عمر بن ھارون مطلقاً جماعۃ‘‘[2] [نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ڈاڑھی کے طول و عرض میں سے بال کٹوا لیا کرتے تھے] ہاں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بسندِ صحیح ثابت ہے کہ وہ حج اور عمرے میں اپنی ڈاڑھی کو ترشواتے اور بقدر ایک قبضہ کے رکھتے تھے۔صحیح بخاری میں ہے: ’’وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علیٰ لحیتہ فما فضل أخذہ‘‘[3] یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی ڈاڑھی کو مٹھی سے پکڑتے اور مٹھی سے جو ڈاڑھی بڑھتی اس کو لے لیتے۔حافظ ابن حجر اس اثر کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’الذي یظھر أن ابن عمر کان لا یخص ھذا التخصیص بالنسک،بل کان یحمل الأمر بالإعفاء علیٰ غیر الحالۃ التي تتشوہ فیھا الصورۃ بإفراط طول شعر اللحیۃ أو عرضہ،فقد قال الطبري:ذھب قوم إلیٰ ظاھر الحدیث فکرھوا تناول شيء من اللحیۃ من طولھا وعرضھا،وقال قوم:إذا زاد علیٰ القبضۃ یؤخذ الزائد،ثم ساق بسندہ إلیٰ ابن عمر أنہ فعل ذلک وإلی عمر أنہ فعل ذلک برجل،ومن طریق أبي ھریرۃ أنہ فعلہ‘‘[4] یعنی ظاہر بات یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ڈاڑھی کو ترشوانا اور بقدر ایک مشت کے رکھنا حج اور عمرے کے ساتھ خاص نہیں تھا،بلکہ وہ ڈاڑھی کے بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے تھے کہ ڈاڑھی طول و عرض میں زیادہ بڑھ کر صورت کو بھدی اور بد نما نہ کر دے۔اس واسطے کہ طبری نے کہا ہے کہ ایک قوم ظاہرِ حدیث کی طرف گئی ہے اور
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۷۶۲) علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں:السلسلۃ الضعیفۃ،رقم الحدیث (۲۸۸) [2] فتح الباري (۱۰/ ۳۵۰) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۵۵۳) [4] فتح الباري (۱۰/ ۳۵۰)