کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 555
في استعمالہ،وإنما ھو کان بدعۃ،لکن البدع إذا لم تکن في الدین والعبادۃ بأن کانت في العادۃ،لم تکن ردا نحو البدع في المأکل والمشارب والملابس والمراکب والمساکن مما لم یقصد بھا فاعلھا التقرب إلیٰ اللّٰه،بل مرادہ مجرد الاستعمال‘‘ اھ [خزام جس کو ہمارے زمانے میں نتھ کہتے ہیں،پہننا عورتوں کو جائز ہے،کیوں کہ یہ عادی امور سے ہے،جیسے دوسرے لباس اور زیور وغیرہ ہیں۔اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ ایک نیا زیور ہے،جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا،لیکن اس کا تعلق دین سے نہیں ہے،بلکہ امور عادیہ سے ہے،جیسے کھانے،پینے،پہننے،سوار ہونے اور گھر کی چیزیں۔اس سے خدا تعالیٰ کا تقرب مقصود نہیں ہوتا،بلکہ اس سے مراد مطلق استعمال ہے] صاحب رد المحتار در مختار کے قول ’’وھل یجوز الخزام في الأنف،لم أرہ‘‘ کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’قلت:إن کان مما تزین بہ النساء کما ھو في بعض البلاد فھو فیھا کثقب القرط‘‘[1] [اگر نتھ عورتوں کا زیور ہے،جیسے کہ بعض شہروں میں اس کا رواج ہے تو وہ بالیوں کی طرح ہے] پھر دربارہ جواز طحاوی کا قول نقل فرمایا،پھر لکھا ہے کہ ’’وقد نص الشافعیۃ علیٰ جوازہ‘‘[2] ان عبارات سے معلوم ہوا کہ عورت کو ناک چھدانا اور اس میں نتھ اور کیل زینت کے لیے پہننا جائز ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔حررہ:عبد الحق ملتانی،عفي عنہ (۲۶/ صفر ۱۳۱۸ھ) سید محمد نذیر حسین هو الموافق امام غزالی نے ’’إحیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے کہ عورت کا کان چھدانا حرام ہے،ہاں اگر شرع میں اس کے بارے میں کچھ ثابت ہو تو اس صورت میں حرام نہیں ہوگا۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں غزالی کے اس کلام کو نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’قلت:جاء عن ابن عباس فیما أخرجہ الطبراني في الأوسط:سبعۃ في الصبي من السنۃ،فذکر السابع منھا:وثقب أذنہ‘‘[3] انتھیٰ یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں جس کو طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے،کان چھدانا آیا ہے،وہ روایت یہ ہے کہ لڑکے میں سات چیزیں سنت ہیں اور ساتویں چیز کان کا چھدانا بیان کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن عباس کی یہ روایت حافظ ابن حجر کے اس قاعدے کے مطابق جس کو انھوں نے اوائل مقدمہ فتح الباری میں بیان کیا ہے،حسن ہونا چاہیے،مگر علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں اس روایت کو پوری
[1] رد المحتار (۶/ ۴۲۰) [2] مصدر سابق [3] فتح الباري (۱۰/ ۳۳۱) نیز دیکھیں:المعجم الأوسط (۱/ ۱۷۶) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وفیہ رواد بن الجراح وھو ضعیف‘‘ (التلخیص الحبیر:۴/ ۱۴۸)