کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 551
عبداللّٰه الغزنوي رحمة اللّٰه عليه۔ اس وقت میرے علم میں جو کچھ مجیب لبیب نے تحریر کیا ہے،راجح بلکہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔فقط ابو اسحاق نیک محمد،عفی عنہ عادت کے طور پر باریک کپڑا بدوں شر کے ہر حالت میں منع ہے،ہاں خاص اوقات میں خلوت کے جیسا بھی ہو،شوہر کے سامنے پہن سکتی ہے،لقولہ:{اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ} [المؤمنون:۶] ابو القاسم علی بن عبدالرحمان القدسی۔[1] کیا مرد کے لیے چاندی کے بٹن لگانا جائز ہے؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ چاندی کے بٹن مرد کو لگانا چاہیے یا نہیں ؟ جواب:مرد کو چاندی کے بٹن لگانا جائز ہیں۔ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی،ہاں بشرطِ صحت حدیث (( لا تتمہ مثقالا )) [2] بٹن کو وزن میں ایک مثقال،یعنی ساڑھے چھے ماشے سے زائد نہیں ہونا چاہیے،اگرچہ جمہور علما کے نزدیک جس طرح سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا پینا حرام ہے،اسی طرح سونے اور چاندی کی ہر چیز کا استعمال حرام ہے،مثلاً:سونے و چاندی کی سلائی اور سرمہ دانی اور عطر دانی وغیرہ تمام استعمال کی چیزوں کا استعمال حرام ہے۔امام نووی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’والحاصل أن الإجماع منعقد علیٰ تحریم استعمال إناء الذھب والفضۃ في الأکل والشرب والطھارۃ والأکل بملعقۃ من أحدھما وجمیع وجوہ الاستعمال‘‘[3] اھ [حاصل یہ کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانا،پینا،وضو کرنا اور سونے چاندی کے چمچے سے کھانا اور ہر طرح کا استعمال بالاتفاق حرام ہے اور اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے] مگر علامہ شوکانی نے جمہور کی مخالفت کی ہے اور ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے برتن میں کھانے اور پینے کی ممانعت احادیث سے ثابت ہے،مگر اس کے سوائے سونے اور چاندی کا اور استعمال ہو،اس کی حرمت ثابت نہیں،کھانے اور پینے پر دوسرے استعمال کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اور اصل حلت ہے۔اس اصل کی
[1] ہفت روزہ ’’توحید،امرتسر‘‘ (۱۷ ذی الحجہ ۱۳۴۶ھ مطابق ۶ جون ۱۹۲۸ء) [2] سنن أبي دود،رقم الحدیث (۴۲۲۴) یعنی چاندی کی انگوٹھی بنا لو،لیکن اس کا وزن ایک مثقال سے کم ہو۔امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔(السنن الکبریٰ:۸/ ۳۷۶) جب کہ ایک حسن حدیث میں مروی ہے کہ چاندی کو جتنا چاہو استعمال کر سکتے ہو۔دیکھیں:سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۲۳۶) [3] شرح صحیح مسلم (۱۴/ ۲۹)