کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 550
اور سفید کہ از مصر خیز‘‘ انتھیٰ جس کے ہندی میں یوں معنی ہوئے:اَلسی کے باریک و سفید مہین کپڑے،جیسا کہ ہمارے یہاں ملک میں سُوتر کی باریک ململیں ہیں۔واللّٰه أعلم تنبیہ دوم:یہ نہی باریک کپڑوں مثلاً باریک ململوں وغیرہ کے متعلق ہے۔اگر موٹی ململ ہو،بایں وصف کہ جھلک یا رنگتِ جسم کو بیان نہ کرے تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں،مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی حدیث (جس کو نو محدثوں نے روایت کیا ہے) میں موٹی ململ کے متعلق فرمایا:’’مرھا أن تجعل تحتھا غلالۃ فإني أخاف أن تصف حجم عظامھا‘‘ (واللّٰه أعلم بالصواب) فی الجملہ ان تمام حدیثوں میں مستورات کے لیے عام طور پر مہین پوشاک پہننی منع وارد ہوئی ہے،ان میں سے کسی ایک حدیث میں بھی یہ ذکر نہیں کہ نماز میں کوئی مستورہ باریک لباس نہ پہنے اور نہ یہ کہیں ذکر ہے کہ جس گھر میں خاوند کے بغیر کوئی نامحرم شخص آئے،وہاں باریک لباس نہ پہنے اور جس گھر میں نامحرم آدمی نہ آئے وہاں پہن لے۔ پہلی دونوں حدیثوں میں صراحتاً دلالت ہو رہی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ اور حضرت دحیہ کی اہلیہ کو ان کے گھروں میں باریک کپڑے کے نیچے موٹا گفدار کپڑا پہننے کا حکم کیا تھا،نیز دوسری حدیث میں صاف لفظ خمار کا ذکر ہے اور خمار (چنی) کپڑا گھر ہی میں پہنا جاتا ہے اور خاوند کی موجودگی یا دیگر محرموں کی موجودگی میں پہنا جاتا ہے،ورنہ باہر جاتے وقت یا نامحرموں مردوں کے سامنے تو اوپر جلباب بڑی چادر یا برقعہ ہوتا ہے۔ مذکورہ دلائلِ احادیث،اقوالِ محدثین اور تبویبِ مولفین سے ثابت ہو گیا کہ مستورات کے لیے مطلقاً باریک کپڑا بدن کی رنگت اور جھلک کو ظاہر کرنے والا پہنانا جائز اور حرام و ممنوع ہے۔ نوٹ:باریک کپڑا مستورات کے لیے جائز ہے،اگر موٹے کپڑے کے اوپر پہن لیں تو شرعاً کوئی حرج نہیں،چنانچہ حدیث اول میں ارشاد ہے:’’أن تجعل تحتھا غلالۃ‘‘ دوسری میں ہے:’’تجعل تحتہ ثوبا لا یصفھا‘‘ جس کے معنی ہیں کہ اپنی بیوی ی کو حکم کرو کہ اس قبطی مصری باریک مہین کپڑے کے نیچے موٹا گفدار کپڑا پہن لے۔ھذا ما عندي من الجواب۔واللّٰه أعلم بالصواب،وعندہ أم الکتاب وأنا العاجز عبدہ الأثیم:شیخ أبو إسحاق إبراہیم عفا عنہ مولاہ الحلیم۔امام مسجد موحدین و مدرس مدرسہ المسلمین موضع باقی پور۔ضحی الجمعہ اوائل رمضان ۴۶ھ للّٰه الحمد اولاً و آخراً الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد الرحمان المبارکفوري۔عفا اللّٰه تعالیٰ عنہ۔۶شوال ۴۶ھ چونکہ عورتوں کا تمام وجود ’’إلا ما ظہر منہا‘‘ عورت ہی ہے،لہٰذا یہی درست بنا بر دلائل مذکورہ یہی صحیح ہے کہ ایسا باریک عورت نہ پہنا کرے جو حکماً عاریۃ اور ننگی ہو۔ ھذا ما عندي من الجوب واللّٰه أعلم بالصواب،وأنا الفقیر إلی اللّٰه الغني:عبد الواحد بن