کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 544
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قبطی کپڑے آئے،آپ نے ان میں سے مجھے بھی ایک کپڑا دیا اور فرمایا:اس کے دو حصے کر لینا،ایک سے اپنی قمیص سلوا لینا اور دوسرا کپڑا اپنی عورت کو دوپٹے کے لیے دے دینا،جب میں واپس جانے لگا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی عورت سے کہنا،اس کے نیچے کوئی اور کپڑا بھی رکھے،ایسا نہ ہو کہ اس کا بدن نظر آتا رہے]
عون المعبود (۴/ ۱۱۰) شرح سنن ابو داود میں ہے:
’’القباطي جمع قبطیۃ،وھي علیٰ ما في الھدایۃ:ثوب من ثیاب مصر،رقیقۃ بیضاء‘‘ انتھیٰ مختصراً۔[قباطی ایک نہایت باریک کپڑا تھا،جو مصر میں تیار ہوتا تھا]
نیل الاوطار (۱/ ۴۱۲) میں اس حدیث کے تحت میں ہے:
’’والحدیث یدل علیٰ أنہ یجب علیٰ المرأۃ أن تستر بدنھا بثوب لا یصفہ،وھذا شرط ساتر العورۃ،وإنما أمر بالثوب تحتہ لأن القباطي ثیاب رقاق،لا تستر البشرۃ عن رؤیۃ الناظر،بل تصفھا‘‘ انتھیٰ
[اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بدن کو ایسے کپڑے سے ڈھانپے،جس سے بدن نظر نہ آئے۔حضور نے قباطی کے نیچے اور کپڑا رکھنے کی ہدایت کی،کیوں کہ وہ باریک کپڑا تھا اور اس سے بدن نہیں ڈھانپا جا سکتا،بلکہ اس سے تو اچھی طرح نظر آنے لگتا ہے]
موطا امام مالک (ص:۳۶۶) میں ہے:
’’ما یکرہ للنساء لباسہ من الثیاب۔مالک عن علقمۃ عن أمہ أنھا قالت:دخلت حفصۃ بنت عبد الرحمن علیٰ عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وعلیٰ حفصۃ خمار رقیق فشقتہ عائشۃ وکستھا خمارا کثیفا۔[1] ثم ذکر في ھذا الباب حدیث ابن شھاب المرفوع،وفیہ:کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ‘‘
[حفصہ بنت عبد الرحمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں،ان پر ایک باریک دوپٹا تھا،آپ نے اس کو پھاڑ ڈالا اور ایک موٹے کپڑے کا دوپٹا ان کو اوڑھا دیا]
مشکات شریف (ص:۳۶۹) میں ہے:
’’عن عائشۃ أن أسماء بنت أبي بکر دخلت علیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم و علیھا ثیاب رقاق،
[1] موطأ الإمام مالک (۱۶۲۷)