کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 541
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ . وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ} [النور:۳۰۔۳۱] یعنی کہہ دیجیے مسلمان مردوں کو کہ بند کریں اپنی آنکھیں (نامحرم عورتوں سے) اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی،یہ بہت پاکیزہ ہے ان کے لیے اور اﷲ خبردار ہے اس سے جو وہ کرتے ہیں اور کہہ دیجیے مسلمان عورتوں سے کہ بند کریں اپنی آنکھیں (نامحرم مردوں سے) اور حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی۔ مشکات شریف میں ہے: ’’عن أم سلمۃ أنھا کانت عند رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ومیمونۃ إذا أقبل ابن أم مکتوم فدخل علیہ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:احتجبا منہ۔فقلت:یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ألیس ھو أعمیٰ لا یبصرنا؟ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:أفعمیاوان أنتما؟ ألستما تبصرانہ‘‘[1] رواہ أحمد والترمذي وأبو داود (مشکوۃ باب النظر إلیٰ المخطوبۃ) یعنی ام سلمہ روایت کرتی ہیں کہ میں اور میمونہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں،اتنے میں ابن ام مکتوم آئے،پس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں سے فرمایا کہ ان سے چھپ جاؤ اور پردہ کر لو تو میں نے کہا:یا رسول اﷲ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا:(یہ اندھے ہیں)تو تم دونوں تو اندھی نابینا نہیں ہو؟ روایت کیا اس کو احمد نے اور ترمذی اور ابو داود نے۔واﷲ تعالیٰ أعلم۔ حررہ:علی احمد مدراسی عفي عنہ سید محمد نذیر حسین هو الموافق جواب صحیح ہے،بے شک ایسے امور سراسر ناجائز و حرام ہیں اور ایسے امور کے مرتکب بلاشبہہ پکے فاسق ہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إیاکم والدخول علیٰ النساء۔فقال رجل:یا رسول اللّٰه! أرأیت الحمو؟ قال:الحمو الموت‘‘[2] (متفق علیہ) یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے بچو۔ایک شخص نے کہا:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! دیور سے خبر دیجیے؟ آپ نے فرمایا:دیور تو موت ہے۔ نیز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لا یخلون رجل بامرأۃ إلا کان ثالثھما الشیطان )) [3] رواہ الترمذي۔
[1] مسند أحمد (۶/ ۲۹۶) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۱۱۲) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۷۷۸) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۹۳۴) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۱۷۲) [3] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۱۶۵)