کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 538
لیے بھی اور صحیح آدمی کے لیے بھی،لیکن اگر اس میں نشہ ہو،اگرچہ تھوڑی پینے میں نہ ہو،بلکہ زیادہ پینے میں ہو تو اس کا پینا ناجائز ہے۔صحیح کے لیے بھی اور مریض کے لیے بھی،یہی حکم ہے۔تبدیلِ ظرف یومیہ کی صورت میں،یعنی اگر نشہ نہ ہو تو عموماً جائز،ورنہ عموماً ناجائز ہے۔
عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہما عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( کل مسکر خمر،و کل مسکر حرام )) [1]
[سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر نشہ آور شَے خمر (شراب) ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے]
وعن وائل الحضرمي أن طارق بن سوید سأل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن الخمر یصنعھا للدواء،فقال:(( إنھا لیست بدواء،ولکنھا داء )) [2] (أخرجہ مسلم و أبو داود وغیرھما،بلوغ المرام)
[وائل حضرمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خمر (شراب) کے بارے میں سوال کیا جو دوائی کے لیے تیار کی جاتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ دوائی نہیں ہے،وہ تو بیماری ہے] واللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ:أبو العلی محمد عبد الرحمن المبارکفوري الأعظم گڑھی،عفي عنہ۔الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔[3]
کیا تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے؟
سوال:چہ می فرمایند علمائے دین اندرین مسئلہ کہ تعویذ نوشتہ در گلو انداختن رواست یا نہ؟
[تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے یا ناجائز؟]
جواب:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد و اختلاف دران بعضے تابعین کردہ اند مگر اشہر واصح جواز است۔’’واختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو أن یقرأ علیٰ المریض والملدوغ أو یکتب في ورق ویعلق أو یکتب في طست فیغسل ویسقیٰ المریض فأباحہ عطاء ومجاھد وأبو قلابۃ،وکرھہ النخعي والبصري۔کذا في خزانۃ الفتاویٰ۔فقد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار۔۔۔کذا في خزانۃ المفتین،ولا بأس بتعلیق التعویذ،ولکن ینزعہ عند الخلاء والقربان۔کذا في الغرائب‘‘ کذا في الفتاویٰ العالمگیریۃ۔[4] واللّٰه أعلم بالصواب۔
[تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا جائز ہے،کوئی حرج نہیں ہے۔بعض تابعین نے اس میں اختلاف کیا ہے،لیکن
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۰۰۳)
[2] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۸۴) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۰۴۶)
[3] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۶۸۱)
[4] الفتاویٰ الھندیۃ (۵/ ۳۵۶)