کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 536
عن ھذا الأصل،ولا فرق بین الحیوانات وغیرھا مما ینفع بہ من غیر ضرر،وفي التاکید بقولہ:{جَمِیْعًا} أقوی دلالۃ علیٰ ھذا‘‘[1] انتھیٰ مختصراً۔
[اس میں دلیل ہے کہ اشیا میں اصل حلت ہے،تا وقتیکہ کوئی دلیل اسے حرام نہ کرے اور حیوانات اور دیگر اشیا میں انتفاع اصل ہے،بشرطیکہ وہ مضر نہ ہو]
تفسیر اکلیل میں ہے:
’’استدل بہ علیٰ أن الأصل في الأشیاء الإباحۃ إلا ما ورد الشرع بتحریمہ‘‘[2]
[اس میں یہ دلیل ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے،سوائے اس کے جس کی حرمت پر کوئی شرعی دلیل وارد ہوئی ہو]
پس جب معلوم ہوا کہ اصل ہر شے میں اباحت ہے تو اب مسئلہ مسئول عنہا میں دیکھنا چاہیے کہ آیا یہ از قبیلِ اباحت ہے یا حرمت؟ تو ہم جس وقت تمباکو اور حقے کے اوصاف کو تلاش کرتے ہیں تو کوئی علت حرمت کی نہیں پاتے۔بنا بریں حقہ نوشی و تمباکو کھانا اپنی اصل اباحت پر رہے گا۔
باقی رہا یہ امر کہ اس کے پینے والے کے منہ سے بدبو آتی ہے تو یہ وصف حرمت کا باعث نہیں ہوسکتا۔اگر یہ وصف حرمت کا باعث ہو تو لہسن و پیاز و مولی اور گندنا وغیرہ بھی حرام ہونا چاہیے،حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا ہے،بلکہ کھا کر مسجد میں جانے سے منع فرمایا ہے تو یہاں پر بھی حقہ پینا ممنوع نہیں ہوگا،بلکہ حقہ پی کر مسجد میں جانا ممنوع ہو گا،جس کے پینے سے منہ بدبو کرتا ہے اور بعد دفع کرنے بدبو کے مسواک وغیرہ سے جائز ہو گا،اور وہ حقہ جس کے پینے سے منہ بدبو نہیں کرتا،جیسا کہ امرائے نفیس الطبع و نفاست پسند کا ہوتا ہے،سو ایسا حقہ پی کر مسجد میں جانا ممنوع نہیں ہوگا۔
بالجملہ جس حقے کے پینے سے منہ بدبو کرتا ہے،وہ مکروہ تنزیہی ہے اور جو حقہ خوشبودار ہوتا ہے،وہ مکروہ تنزیہی بھی نہیں اور جب ثابت ہوا کہ تمباکو حرام نہیں تو پانی حقے کا کیونکر ناپاک اور پلید ہوگا؟
غایت ما فی الباب پانی بدبودار ہو جائے گا اور پانی بدبودار ہوجانے سے پلید و ناپاک نہیں ہوتا،ہاں اگر نجاست کی وجہ سے بدبو ہوجائے تو البتہ ناپاک ہوگا۔ہذا ما ظہر لي،واللّٰه أعلم بالصواب۔
حررہ:السید عبد الحفیظ غفرلہ ولوالدیہ۔
هو الموافق حقہ نوشی ایک مضر چیز ہے اور اس کا ضرر ظاہر ہے۔جو شخص حقہ کا عادی نہ ہو،وہ پانچ چھے کش اچھی طرح
[1] فتح البیان (۱/ ۱۱۹)
[2] الإکلیل في استنباط التنزیل (ص:۲۷)