کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 535
’’قد تکلم العلماء المتأخرون في ذلک،لأنہ لم یکن في القرون السالفۃ،فمنھم من فرط في ذمہ،ومنھم من فرط في مدحہ،ومنھم من توسط،وقال:إنہ مکروہ تحریما،وھذا عندي أحسن الأقوال وأعدلھا،إذ لا قاطع بتحریمہ،ولیس کل موذ ومنتن حراما وإلا لکان أکل الثوم والبصل والفجل والکراث حراما،ھذا کلہ في شرب دخانہ،وأما أکلہ و شمہ فھو مکروہ تنزیھا عندي،لأنھما دون شرب دخانہ‘‘ انتھیٰ [پچھلے علما نے اس میں گفتگو کی ہے۔بعض نے اس کی مذمت میں مبالغہ کیا اور بعض نے مدح میں اور بعض نے مکروہ تحریمی کہا۔یہ آخری قول مجھے پسند ہے،کیوں کہ اس کی حرمت پر کوئی دلیل قطعی نہیں ہے۔ہر اذیت پہنچانے والی یا بدبودار چیز حرام نہیں ہے،ورنہ لہسن،پیاز،مولی،گندنا وغیرہ سب حرام ہوں۔یہ تو حقہ نوشی کے متعلق ہے،البتہ تمباکو کو کھانا یا نسوار لینا میرے لیے مکروہ تنزیہی ہے،کیوں کہ وہ دھواں کھینچنے سے کم ہے] جو لوگ حقہ نوشی کی حرمت کے قائل ہیں،ان کا قول ناقابلِ اعتماد ہے،اس واسطے کہ حرمت موقوف ہے اوپر دلیل قطعی کے اور قائلینِ حرمت نے حرمت پر کوئی دلیل قطعی قائم نہیں کی ہے،بلکہ جتنی دلیلیں وہ پیش کرتے ہیں،کل کی کل ظنی ہیں اور وہ بھی مخدوش،اور جو لوگ اباحت مطلق کے قائل ہیں،ان کا قول بھی لائقِ اعتماد کے نہیں،اس واسطے کہ ان کے دلائل بھی مخدوش ہیں،اور جو لوگ اباحت مع الکراہۃ کے قائل ہیں،ان کا قول البتہ قابلِ اعتماد ہے۔یہ گفتگو حقہ نوشی میں ہے۔ رہا تمباکو کا کھانا اور استعمال کرنا اس کا ناک میں سو کوئی دلیل معتبر اس کی کراہت پر قائم نہیں ہے اور تمباکو ایک پاک چیز ہے اور اس کا دھواں بھی پاک ہے،پس اس کے پانی کے ناپاک ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور دھوئیں کی وجہ سے جو پانی متغیر ہو جاتا ہے،سو اس سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوسکتا،کیونکہ نجاست کی وجہ سے جب پانی میں تغیر ہوتا ہے،تب پانی ناپاک ہوتا ہے اور کسی پاک چیز کی وجہ سے تغیر ہو تو ناپاک نہیں ہوتا۔ ہمارے اتنے بیان سے معلوم ہوا کہ زید کا قول غلط ہے،زید کو لازم ہے بلا دلیل کسی چیز کو حرام اور ناپاک کہنے سے احتراز کرے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب حررہ:خلیل الرحمن غفرلہ المنان۔ واضح ہو کہ اصل اشیا میں اباحت ہے،یعنی اس فعل کے کرنے سے ثواب اور نہ اس کے ترک میں عقاب،جیسا کہ آیتِ قرآنی اس پر دال ہے:قال اللّٰه تعالیٰ:{ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعَا} [البقرۃ:۲۹] فتح البیان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: ’’فیہ دلیل علیٰ أن الأصل في الأشیاء المخلوقۃ الإباحۃ حتی یقوم دلیل یدل علیٰ النقل