کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 530
الجواب صحیح۔احمد سعید واعظ۔الجواب صحیح۔محمد انیس عفا اﷲ عنہ نگر امی۔المجیب مصیب۔خواجہ غلام نظام الدین قادری مفتی بد ایونی۔ذلک کذلک۔سید محمد فاخر بیخود فخری اجملی الٰہ آبادی۔الجواب صحیح۔سید کمال الدین احمد جعفری الٰہ آبادی،الجواب صواب۔محمد قدیر بخش عفا اﷲ عنہ مولوی تاج محمد امروت،أجاب من أصاب۔محمد ابراہیم عفی عنہ انجمن اسلامیہ دربھنگہ۔بے شک ناجائز۔خدا بخش مظفر پوری،صح الجواب۔محمد سلامت اﷲ فرنگی محلی لکھنوی۔الجواب صحیح۔محمد امام صاحبزادہ جناب حضرت پیر صاحب علم سندھ۔الجواب مطابق بالکتاب والسنۃ اسد اﷲ الحسینی لکھڑی سندھی۔الجواب صحیح۔مولد بخش مدرس تقویۃ الاسلام امرتسر۔الجواب صحیح۔عبدہ ابراہیم سیالکوٹی۔الجواب صحیح۔العبد الاثیم محمد عبدالحکیم المدرس الثانی فی مدرسۃ انوار العلوم (گیا) صح الجواب۔محمد صادق کراچوی۔
اندرین حالت کسی مسلمان کو جشنِ صلح میں شریک ہونا قطعاً ناجائز اور حرام ہے،جو شریک ہو وہ وعید:(( من کثر سواد قوم فھو منھم )) [1] میں داخل ہے اور اس سے ہر ایک مسلم صادق کو قطعِ تعلق کرنا چاہیے۔سید محمد دواد غزنوی امرتسر۔جواب صحیح ہے۔عاجز سید اسماعیل غزنوی امرتسر۔صحیح ہے بحدیث (( المسلمون کرجل واحد إن اشتکی عینہ اشتکی کلہ )) [2] الحدیث ابو الوفا ثناء اﷲ امرتسری۔من أجاب أصاب۔محمد عبداللّٰه عفی عنہ۔
سماعِ غنا کی شرعی حیثیت:
سوال:امام شوکانی رحمہ اللہ کا سماعِ مزامیر کو جائز کہنا کیسا ہے؟
جواب:امام شوکانی رحمہ اللہ کا سماعِ مزامیر کو جائز کہنا بجا ہے،مگر وہی جس کو شارع نے مباح کہا ہے،جیسا کہ نیل الاوطار جلد سادس ’’باب الدف واللہو في النکاح‘‘ میں مذکور ہے۔حدِ مباح سے جو باہر ہے،ہر گز جائز نہیں،بلکہ اس پر وعید ہے،چنانچہ نیل الاوطار جلد سابع ’’باب ما جاء في آلۃ اللہو‘‘ میں مذکور ہے کہ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے:
’’لیشربن ناس من أمتي الخمر یسمونھا بغیر اسمھا،یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات،یخسف اللّٰه بھم الأرض،ویجعل منھم القردۃ والخنازیر‘‘[3]
[میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام کوئی اور رکھ لیں گے،ان کی مجالس میں باجا اور راگ رنگ ہوگا،اﷲ بعض کو ان میں سے زمین میں غرق کر دے گا اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا ڈالے گا]
غرضکہ سماع با مزامیر مجاوز حدِ اباحت ہے،جس کے عدمِ جواز میں صحیح حدیثیں مروی ہیں۔ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔جماعتِ صوفیہ اباحتِ مطلقہ کے قائل ہیں اور امام شوکانی بھی انھیں میں سے ہیں،حالانکہ جس حدیث سے
[1] نصب الرایۃ (۴/ ۴۰۳) اس کی سند میں انقطاع ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں:المطالب العالیۃ (۸۰/۳۱۹) إتحاف المھرۃ للبوصیري (۵/ ۱۵۶)
[2] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۷۵۴)
[3] نیل الأوطار (۸/ ۱۷۶) نیز دیکھیں:سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۴۰۲۰)