کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 524
[اس میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس کو طبرانی نے اسماعیل بن مسلم سے انھوں نے عبداﷲ بن بریدہ انھوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے۔اسماعیل ضعیف ہے اور طبرانی نے ذکر کیا ہے کہ وہ اس میں متفرد ہے] پس جب معلوم ہوا کہ اسماعیل بن مسلم ضعیف ہے اور اس حدیث کو قتادہ سے روایت کرنے میں متفرد ہے تو ظاہر ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔اس حدیث کی تائید نہ کسی حدیث سے ہوتی ہے اور نہ آثارِ صحابہ سے اور جتنی حدیثیں عقیقے کے دن کے متعلق باسانیدِ صحیحہ وارد ہوئی ہیں،ان تمام حدیثوں سے عقیقے کا ایک ہی دن،یعنی ساتواں دن ثابت ہوتا ہے،پس طبرانی کی اس حدیث کا قابلِ احتجاج ہونا محلِ تامل ہے اور اگر طبرانی کی یہ حدیث قابلِ احتجاج مانی جائے تو اس تقدیر پر ساتواں اور چودھواں اور اکیسواں دن جوازِ عقیقہ میں برابر ہونا چاہیے اور یہ قید ’’اگر ساتویں روز عقیقہ نہ ہوسکے تو چودھویں دن کرنا چاہیے‘‘ بیکار ہو جائے گی۔فتفکر! ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔ کیا ساتویں روز کے بعد عقیقہ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ سوال:عقیقہ اگر سات روز میں کسی باعث سے نہ ہوسکا تو اس کے بعد ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ جواب:جامع ترمذی میں ہے کہ اہلِ علم ساتویں روز عقیقہ کرنے کو مستحب جانتے ہیں،اگر ساتویں روز نہ ہوسکا تو چودھویں روز کرنا چاہیے اور اگر چودھویں روز نہ ہو سکا تو اکیسویں روز کرنا چاہیے۔[1] قاضی شوکانی نیل الاوطار میں ترمذی کے اس قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’ویدل علیٰ ذلک ما أخرجہ البیھقي عن عبد اللّٰه بن بریدۃ عن أبیہ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:العقیقۃ تذبح بسبع،ولأربع عشرۃ،ولإحدیٰ وعشرین‘‘[2] یعنی اس قول پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے،جس کو عبداﷲ بن بریدہ نے اپنے باپ سے اور انھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عقیقہ ذبح کیا جائے،ساتویں روز اور چودھویں روز اور اکیسویں روز۔مگر شوکانی نے نہ اس کی سند لکھی ہے اور نہ اس کا صحیح یا ضعیف ہونا ظاہر کیا ہے۔سبل السلام (ص:۲۰۸) میں ہے: ’’قال النووي:إنہ یعق قبل السابع،وکذا عن الکبیر،فقد أخرج البیھقي من حدیث أنس أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عق عن نفسہ بعد البعثۃ،ولکنہ قال:منکر،وقال النووي:حدیث باطل‘‘[3] یعنی نووی نے کہا ہے کہ ساتویں روز کے قبل بھی عقیقہ کرنا درست ہے اور اسی طرح بڑے ہونے کے بعد بھی
[1] سنن الترمذي (۴/ ۱۰۱) [2] نیل الأوطار (۵/ ۱۹۴) نیز دیکھیں:سنن البیھقي (۹/ ۳۰۳) اس کی سند میں ’’اسماعیل بن مسلم‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں:إرواء الغلیل (۴/ ۳۹۵) [3] سبل السلام (۴/ ۹۷)