کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 523
’’لم یروہ عن حریث إلا مسعدۃ،تفرد بہ عبد الملک بن معروف‘‘[1]
[اس کو حریث سے صرف مسعدہ نے روایت کیا ہے،اس میں عبدالملک بن معروف متفرد ہے]
تو ظاہر ہے کہ معجم صغیر کی یہ حدیث ہرگز مقبول و قابلِ احتجاج نہیں ہوسکتی ہے اور جب یہ حدیث قابلِ احتجاج نہ ہوئی تو اس حدیث سے عقیقے میں گائے اور شتر کے ذبح کرنے کا جواز ہی ثابت نہ ہوا،پھر اس حدیث سے ایک گائے یا ایک شتر میں سات عقیقے کا جواز کیونکر ثابت ہوگا؟ ہمارے اتنے ہی بیان سے مجوزین کے استدلال کا مخدوش و ناقابلِ وثوق ہونا صرف ظاہر ہوگیا۔اب ہمیں کچھ ضرورت نہیں معلوم ہوتی کہ باقی دو امروں کے غیر مسلم ہونے کی وجوہ پیش کریں۔اگر کوئی مجوز اس حدیث کا مقبول و قابلِ احتجاج ہونا ثابت کرلے گا تو ہم اس وقت ان شاء اﷲ باقی دو امروں کے غیر مسلم ہونے کی وجوہ وضاحت کے ساتھ پیش کریں گے۔
نیز واضح ہو کہ عقیقہ کے متعلق ایک یہ مسئلہ بہت مشہور ہے کہ اگر ساتویں روز کسی وجہ سے عقیقہ نہ ہو سکے تو چودھویں روز یا اکیسویں روز عقیقہ کرنا چاہیے۔مولوی صاحب ممدوح نے بھی اس مسئلے کو لکھا ہے اور اس کے ثبوت میں معجم صغیر کی یہ حدیث نقل کی ہے:
’’عن بریدۃ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( العقیقۃ تذبح لسبع أو أربعۃ عشرۃ أو إحدی وعشرین )) [2]
[بریدہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’عقیقے کا جانور ساتویں،چودھویں یا اکیسویں دن ذبح کیا جائے]
مگر مولوی صاحب ممدوح نے اس حدیث کی صحت و ضعف سے کچھ بحث نہیں کی ہے،پس مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق بھی کچھ بحث کر دی جائے۔سو واضح ہو کہ اس کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم واقع ہے،اس حدیث کو قتادہ سے اس کے سوا اور کوئی روایت نہیں کرتا ہے۔امام طبرانی اس حدیث کو روایت کر کے لکھتے ہیں:’’لم یروہ عن قتادۃ إلا إسماعیل،تفرد بہ الخفاف‘‘ [اس کو قتادہ سے صرف اسماعیل نے روایت کیا ہے اور خفاف اس کی روایت میں متفرد ہے]
نیز اسماعیل بن مسلم کی نسبت معجم صغیر کے حاشیہ پر لکھا ہے:’’ضعیف لکثرۃ غلطہ ووھمہ‘‘[3] یعنی بسبب کثرتِ غلط اور وہم کے اسماعیل بن مسلم ضعیف ہے۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
’’ورد فیہ حدیث،أخرجہ الطبراني من إسماعیل بن مسلم عن عبداللّٰه بن بریدۃ،عن أبیہ،وإسماعیل ضعیف،وذکر الطبراني أنہ تفرد بہ‘‘[4]
[1] المعجم الصغیر (۱/ ۱۵۰)
[2] المعجم الصغیر (۲/ ۲۹)
[3] دیکھیں:مجمع الزوائد (۴/ ۵۹) إرواء الغلیل (۴/ ۴۹۵)
[4] فتح الباري (۹/ ۵۹۴)