کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 522
مجوزین کا استدلال معجم صغیر طبرانی کی اس حدیث سے ہے:
عن أنس بن مالک قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( من ولد لہ غلام فلیعق عنہ من الإبل أو البقر أو الغنم )) [1]
اس حدیث سے پہلے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عقیقہ میں گائے اور شتر کا ذبح کرنا جائز ہے،پھر عقیقے کو قربانی پر قیاس کر کے ایک گائے یا ایک شتر میں سات عقیقے کی شرکت کا جواز ثابت کیا جاتا ہے۔اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا مجرد اس حدیث کے پیش کر دینے اور عقیقے کو اضحیہ پر قیاس کر لینے سے مجوزین کا یہ استدلال صحیح ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں۔اس استدلال کی صحت علی الترتیب تین امور کی تحقیق پر موقوف ہے:
1۔پہلا امر یہ ہے کہ یہ حدیث بقاعدہ اصولِ حدیث مقبول و قابلِ احتجاج ہے یا نہیں ؟
2۔دوسرا امر یہ ہے کہ عقیقہ کا قیاس اضحیہ پر صحیح ہے یا نہیں ؟
3۔تیسرا امر یہ ہے کہ کیا ہم مامور ہیں کہ شریعت کے ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کر کے ایک کی شرائط و قیود کو دوسرے کے لیے ثابت کیا کریں ؟
جب تک ان تینوں امروں کی تحقیق نہ ہوگی،تب تک مجوزین کا یہ استدلال صحیح و قابلِ وثوق نہیں ہو سکتا۔غالباً مجوزین نے ان تینوں مرحلوں کو طے نہیں کیا ہے اور پہلے ہی منزلِ مطلوب پر پہنچنا چاہا ہے۔میرے نزدیک تو ان تینوں امروں میں سے کوئی بھی مسلم نہیں ہے،یعنی نہ اس حدیث کا صحیح و قابلِ احتجاج ہونا مسلم ہے اور نہ اضحیہ پر عقیقہ کے قیاس کی صحت مسلم ہے اور نہ یہ مسلم ہے کہ ہم ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس کر کے ایک کی شرائط و قیود کو دوسرے کے لیے ثابت کرنے کے لیے مامور ہیں۔
اس حدیث کا صحیح و قابلِ احتجاج ہونا اس لیے غیر مسلم ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی مسعدہ بن الیسع واقع ہے،اس راوی کو حافظ ذہبی نے ’’ھالک‘‘ بتایا ہے۔ابو داود نے کاذب کہا ہے۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی حدیثوں کو چاک کر ڈالا ہے۔میزان الاعتدال میں ہے:
’’مسعدۃ بن الیسع الباھلي سمع من متأخري التابعین،ھالک،کذبہ أبو داود،وقال أحمد بن حنبل:خرقنا حدیثہ منذ دھر‘‘[2]
پس جب مسعدۃ بن الیسع کی یہ حالت ہے اور ساتھ اس کے اس روایت اس کے سوا اور کوئی روایت نہیں کرتا ہے۔امام طبرانی معجم صغیر میں اس حدیث کو روایت کر کے لکھتے ہیں:
[1] المعجم الصغیر (۱/ ۱۵۰)
[2] میزان الاعتدال (۴/ ۹۸)