کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 520
’’عن أبي رافع قال:رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أذن في أذن الحسین رضی اللّٰه عنہ حین ولدتہ فاطمۃ رضی اللّٰه عنہا بالصلاۃ۔[1] رواہ أحمد،وکذلک أبو داود،والترمذي وصححہ،وقال:الحسن‘‘ کذا في منتقیٰ الأخبار۔
[حضرت حسین جب حضرت فاطمہ کے ہاں پیدا ہوئے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کانوں میں نماز کی سی اذان کہی]
قد حررہ:أبو الخیر محمد یٰسین الرحیم آبادی،ثم العظیم آبادی عفي عنہ
فقیر محمد عبدالحق نازل شدہ درشان محمد یٰسین
الجواب صحیح:حمید اللّٰه عفي عنہ،مدرس مدرسہ مطلع العلوم میرٹھ۔الجواب صحیح،محمد طاھر سلھٹی۔محمد عبید اللّٰه مصنف تحفۃ الھند محمد عبید اللّٰه ۱۲۹۱ھ
أصاب من أجاب۔حسبنا اللّٰه بس حفیظ اللّٰه۔عقیقہ سنت ہے،اگر کیفیت و کمیت میں سہولت ہے۔امیر احمد پشاوری۔
الجواب صحیح:حررہ:أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن الاعظم گڈھی المبارکفوري،عفي عنہ۔[2]
الجواب صحیح۔أبو القاسم محمد عبد الرحمن۔الجواب صحیح والمجیب نجیح۔حررہ:أبو عبد اللّٰه فقیر اللّٰه متوطن ضلع شاہ پور پنجاب
مجیب صاحب نے جواب محققانہ دیا ہے اور بہت صحیح ہے،لیکن یہ ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ یہ جو عوام الناس،بلکہ بعض بعض خواص میں بھی مشتہر ہو رہا ہے کہ لڑکے کے لیے نر چاہیے اور لڑکی کے لیے مادہ۔تو یہ بات بالکل غلط اور بے اصل ہے،حدیث شریف میں آیا ہے کہ کچھ حرج و مضائقہ نہیں خواہ نر ہو یا مادہ:
’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:ولا یضرکم ذکرانا أو إناثاً۔کذا في أبي داود والترمذي والنسائي والمشکوۃ وغیرھا وکذا في الشروح مثل فتح الباري وغیرہ‘‘
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ عقیقہ کی بکریاں نر ہوں یا مادہ]
اذان کا حکم یہ ہے کہ داہنے کان میں اذان کہنی چاہیے اور بائیں میں تکبیر۔حضرت فرماتے ہیں کہ مولود اُم صبیان سے محفوظ رہے گا۔في مسند أبو یعلی الموصلي عن الحسین رضی اللّٰه عنہ مرفوعاً:من ولد لہ فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسریٰ لم تضرہ أم الصبیان۔رواہ في الجامع الصغیر،وکذا في
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۱۰۵) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۵۱۴) مسند أحمد (۶/ ۹) نیل الأوطار (۵/۱۹۷)
[2] فتاویٰ نذیریہ (۳/۲۴۶)