کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 52
والے تھے۔آپ بڑے عہدے اور بڑی تنخواہوں کے خواہش مند ہرگز نہ تھے۔آپ ہر وقت طلبِ علم،تالیفِ کتب اور مطالعہ میں لگے رہتے۔ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے۔دل کے صاف،زبان کے بہت پاک،خاموش رہنے والے تھے۔آخری عمر میں آپ کی نظر بند ہوگئی،جو اپریشن کے عود کر آئی اور دوسرے مرض آپ کو لاحق ہو گئے۔‘‘ مولانا قاضی اطہر مبارک پوری (المتوفی ۱۹۹۶ء) حضرت مبارک پوری رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مولانا کی زندگی سلف صالحین کا نمونہ تھی۔علم و فضل،تقویٰ و طہارت،زہد و قناعت،انزوا و عزلت اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے۔دنیا میں رہ کر دنیا سے بے گانہ،درس و تدریس،تصنیف و تالیف،طبابت و حکمت زندگی کے مشاغل تھے۔خشیتِ الٰہی کا غلبہ تھا۔سنا ہے جہری نماز نہیں پڑھاتے تھے،کیوں کہ رو دیا کرتے تھے۔ان کے ایک عزیز شیخ شبلی کاانتقال ہوا تومولانا نے ان کی نماز جنارہ پڑھائی تو آخری تکبیر میں بے قابو ہو گئے،مشکل سے تکبیر پوری کر سکے۔اس جنازہ میں راقم بھی شامل تھا۔‘‘[1] مولانا عتیق احمداصلاحی (المتوفی ۱۹۹۷ء) حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے اخلاق و عادات کے بارے میں رقمطراز ہیں: ’’مولانا (مبارک پوری رحمہ اللہ)حقیقی معنوں میں زاہد تھے۔انھوں نے دنیا کمانے کی فکر نہیں کی۔آخری عمر میں تو تمام ترغیبات کو نظر انداز کر کے صرف فنِ حدیث کو لے کر اپنے حجرے میں معتکف ہو گئے تھے۔ان کی زندگی نہایت درویشانہ اور غریبانہ تھی۔حالانکہ اگر وہ چاہتے تو بڑے عیش و آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے۔وہ پشاور سے لے کر کلکتہ تک اہلِ حدیث علما اور عوام کے مرکزِ عقیدت تھے اور سعودی حکومت بھی ایک زمانے میں ان کی خدمات حاصل کرنے کی متمنی تھی۔لیکن وہ شرح ترمذی کا کام لے کر اس طرح دنیا سے منقطع ہو کر بیٹھ گئے کہ موت کے سوا ان کو ان کے زاویے سے کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔‘‘ اس کے بعد مولانا اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں: ’’اہلِ علم سے ان کی گفتگو زیادہ تر مشکلاتِ حدیث سے متعلق ہوتی تھی۔میں نے کبھی ان کی زبان سے غیبت یا ہجو نہیں سنی۔خرابیِ صحت،آنکھوں کی معذوری،کام کی کثرت اور رفقاے کار کی قلت کا شکوہ بھی کبھی ان کی زبان سے نہیں سنا۔حالانکہ یہ ساری تکلیفیں فی الواقع ان کی تھیں۔اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی،اگر وہ ان کا ذکر کرتے تو لوگ نہایت عقیدت سے ان کی بات سنتے۔مگر وہ مجسم صبر و شکر تھے۔کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لاتے۔‘‘[2]
[1] تذکرہ علماے مبارک پور،(ص:۱۵۰) [2] دبستانِ حدیث،(ص:۲۰۰) بحوالہ ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ اگست ۱۹۵۵ء۔