کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 519
5۔اس کے کھانے کا بھی حکم گوشت قربانی کا حکم ہے،یعنی کرنے والا کھائے اور دوسروں کو کھلائے۔یہ جو مشہور ہے کہ ماں باپ عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں،بالکل بے اصل ہے،اسی طرح سے عقیقہ میں سے دائی کو دینا،جیسا کہ مروج ہے،ضروری نہیں ہے،لیکن اگر وہ محتاج ہو تو بزمرۂ محتاجان وہ بھی مستحق ہے،چنانچہ اس میں شاہ عبدالعزیز صاحب کا فتویٰ ایسا ہی ہے۔
6۔لڑکے کا سر منڈوائے اور اس کے بالوں کے برابر چاندی تول کر کے خیرات کرے اور اسی دن نام رکھے،یہ بھی سنت اور عقیقہ کے لوازمات میں سے ہے:
’’وعن أبي رافع أن حسن بن علي رضی اللّٰه عنہما لما ولد أراد أمہ فاطمۃ أن تعق بکبشین،فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:لا تعقي عنہ،ولکن احلقي شعر رأسہ فتصدقي بوزنہ من الورق،ثم ولد حسین رضی اللّٰه عنہ فصنعت مثل ذلک۔رواہ أحمد‘‘[1] کذا في منتقیٰ الأخبار۔
[جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے تو حضرت فاطمہ نے دو مینڈھے ذبح کرنے چاہے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو عقیقہ نہ کر،بلکہ اس کے سر کے بال منڈوا اور ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کر دے۔پھر جب حضرت حسین پیدا ہوئے تو حضرت فاطمہ نے ایسا ہی کیا]
حضرت فاطمہ کو حضرت حسن کے عقیقہ کرنے سے جو منع فرمایا،اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا عقیقہ کر چکے تھے،جیسا کہ حدیث سابق میں گزرا:
’’قولہ:لا تعقي عنہ۔قیل:یحمل ھذا علیٰ أنہ قد کان صلی اللّٰه علیہ وسلم عق عنہ،وھذا متعین لما قدمنا في روایۃ الترمذي والحاکم عن علي رضی اللّٰه عنہ ‘‘ انتھیٰ ما في نیل الأوطار۔
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو اس لیے عقیقے سے منع فرمایا کہ آپ خود ان کا عقیقہ کر چکے تھے،جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے]
وعن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمر بتسمیۃ المولود یوم سابعہ ووضع الأذی والعق،وقال:حدیث حسن غریب‘‘[2] کذا في منتقیٰ الأخبار۔
[نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے اور سر منڈایا جائے]
7۔عقیقہ کے مناسبات سے یہ بھی ہے،اس لیے ذکر کرتا ہوں،کہ لڑکے کے پیدا ہونے کے دن کان میں اذان دینی چاہیے،اس میں لڑکے اور لڑکی کا ایک ہی حکم ہے،یعنی داہنے کان میں دونوں کے اذان دینی چاہیے:
[1] مسند أحمد (۶/ ۳۹۲) نیل الأوطار (۵/ ۱۹۶)
[2] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۸۳۲) نیل الأوطار (۵/ ۱۹۵)