کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 516
جواب:1۔عقیقہ جمہور کے نزدیک واجب نہیں۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مستحب ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک واجب ہے،مگر قولِ جمہور اصح و اَصوب ہے،کیونکہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ ثابت ہے اور اس کا ترک ثابت نہیں ہے،لیکن وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے تو سنت ہوا،اس لیے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز ثابت ہو بغیر ترک کے وہ سنت ہے،جب تک وجوب کی کوئی دلیل نہ ہو۔یہ جو حدیث میں بلفظ امر آیا ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرو:
’’وعن سلمان بن عامر الضبي رضی اللّٰه عنہ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما،و أمیطوا عنہ الأذی‘‘[1] رواہ الجماعۃ إلا مسلماً۔کذا في المنتقیٰ۔
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر لڑکے کا عقیقے پر خون گراؤ اور اس کی گندگی دور کرو]
یہ امر وجوب کے لیے نہیں ہے کہ اس سے وجوبِ عقیقہ پر دلیل لائی جائے،کیونکہ دوسری حدیث میں (جو آگے آتی ہے) کہ جو شخص عقیقہ کرنا چاہے کرے۔اس اختیار دینے سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے تو ضرور ہوا کہ حدیثِ سابق کے امر کو وجوب کے لیے نہ لیں،تاکہ دونوں حدیثوں میں مطابقت ہو جائے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اس بات پر کہ عقیقہ مستحب ہے سنت نہیں،مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے،کیونکہ اختیار کسی فعل میں شارع کی طرف سے اس کی سنت کے مخالف نہیں ہے،اس لیے کہ سنت میں بھی اختیار حاصل ہوتا ہے،بلکہ مستحب وہ ہے جس کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہو اور کبھی چھوڑ دیا ہو۔کما لا یخفی علی الماھر بالأصول۔
’’قولہ:فأھریقوا عنہ دما۔تمسک بھذا وبقیۃ الأحادیث القائلون بأنھا واجبۃ،وھم الظاھریۃ والحسن البصري،وذھب الجمھور من العترۃ وغیرھم إلیٰ أنھا سنۃ،وذھب أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰه إلیٰ أنھا لیست فرضا ولا سنۃ،وقیل:إنھا عندہ تطوع۔احتج الجمھور بقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:من أحب أن ینسک عن ولدہ فلیفعل،وسیأتي،وذلک یقتضي عدم الوجوب لتفویضہ إلیٰ الاختیار فیکون قرینۃ صارفۃ للأوامر ونحوھا عن الوجوب إلیٰ الندب،وبھذا الحدیث احتج علی عدم الوجوب والسنیۃ،ولکنہ لا یخفیٰ أنہ لا منافاۃ بین التفویض إلیٰ الاختیار وبین کون الفعل الذي وقع فیہ التفویض سنۃ‘‘[2] انتھیٰ ما في نیل الأوطار۔
[اس حدیث اور باقی احادیث سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔ظاہریہ اور حسن بصری کا یہی مذہب ہے۔تمام اہلِ بیت اس کو سنت کہتے ہیں اور امام ابوحنیفہ مستحب یا نفل۔جمہور نے حضور کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:جو اپنے بچے کی طرف سے ذبح کرنا چاہے وہ کرے،
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۱۵۴) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۸۳۹) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۵۱۵) سنن النسائي،رقم الحدیث (۴۲۱۴) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۱۶۴)
[2] نیل الأوطار (۵/ ۱۹۴)