کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 515
اپنی طرف سے اور اپنی آل کی طرف سے اور اپنی امت کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔[1] آپ کی امت میں بعض لوگ وفات بھی پاگئے تھے،لیکن ہر گز یہ ثابت نہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قربانی کا گوشت خود نہیں کھایا اور کل گوشت بقدر حصہ اموات کے صدقہ کر دیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک قربانی کرتے تھے،[2] لیکن حضرت علی کا اس قربانی کے گوشت کو خود نہ کھانا اور کل گوشت کو صدقہ کر دینا ہر گز ثابت نہیں۔رہا فتویٰ عبداﷲ بن مبارک کا سو یہ ان کی رائے ہے اور ان کی اس رائے پر کوئی دلیل صحیح قائم نہیں ہے۔عون المعبود شرح ابو داود جلد ثالث (صفحہ:۵۰) میں اس کی بحث تفصیل سے لکھی گئی ہے۔من شاء الاطلاع علیہ فلیرجع إلیہ،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔کتبہ:محمد عبدالرحمن المبارکفوري عفا اللّٰه عنہ۔[3] عقیقے کے احکام و مسائل عقیقے کی شرعی حیثیت اور اس کے احکام: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ عقیقہ کرنا واجب ہے یا سنت یا مستحب اور اس کے احکام کیا ہیں ؟
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۶۷) اس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا جانور ذبح کرنے لگے تو فرمایا:(( باسم اللّٰه! اللّٰهم تقبل من محمد وآل محمد ومن أمۃ محمد )) اس حدیث سے کسی فوت شدہ شخص کے لیے قربانی کرنے پر استدلال کرنا محلِ نظر ہے: 1۔اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی قبولیت کی دعا فرمائی ہے،الگ سے امت کے لیے قربانی کا جانور ذبح نہیں فرمایا۔ 2۔اس حدیث میں صرف ایک ہی جانور کو ذبح کرنے کا ذکر ہے،فوت شدہ کی طرف سے دوسرا جانور قربانی کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ 3۔اس حدیث میں ایک ہی چھترا قربانی کرنے کا ذکر ہے،جس میں ایک ہی قربانی ہو سکتی ہے۔اونٹ گائے کی طرح ایک سے زائد افراد کی طرف سے قربانی نہیں کی جا سکتی۔اس لیے مذکورہ بالا حدیث میں ایسے لوگوں کے لیے قطعاً کوئی دلیل نہیں،جو ایک جانور اپنی طرف سے اور دوسرا جانور فوت شدہ کی طرف سے قربان کرتے ہیں۔سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۸۱۰) میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک ہی قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے،جو قربانی نہیں کر سکے۔اس حدیث کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھترا اپنی طرف سے اور اپنی امت میں سے قربانی نہ کرنے والوں کی طرف سے ذبح کیا ہے،جو صرف نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے،افرادِ امت کے لیے اس پر عمل کرنا روا نہیں،کیوں کہ ہمارے لیے ایک چھترے اور ایک بکرے میں ایک ہی قربانی کرنا مشروع ہے۔ ایک حدیث میں دو چھترے قربان کرنے کا ذکر ہے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ساری امت کی طرف سے،لیکن وہ ضعیف ہے۔دیکھیں:مسند أحمد (۶/ ۳۹۱) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۸۴۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۴۹۵) اس کی سند میں ’’شریک بن عبداﷲ‘‘ راوی ضعیف ہے اور ’’ابو الحسناء‘‘ مجہول ہے۔ [3] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۲۴۳)