کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 514
[جو آدمی اپنی قربانی کی کھال بیچ ڈالے،اس کی قربانی نہیں ہے۔حاکم نے اپنی تفسیر میں اور بیہقی نے اسے روایت کیا ہے]
درایہ کے حاشیے میں ہے:
’’وصححہ لکن فیہ:عبد اللّٰه بن عیاش،قال الذھبي في مختصرہ:ضعفہ أبو داود‘‘ انتھیٰ
[اس کو صحیح کہا ہے،لیکن اس میں عبداﷲ بن عباس ہے،ذہبی نے اپنی مختصر میں کہا ہے:اس کو ابو داود نے ضعیف کہا ہے]
ہاں قربانی کی کھال کو بغیر فروخت کیے اپنے مصرف میں لانا ہر طرح درست اور جائز ہے،مثلاً:اس کا بستر بنانا اور مشک اور ڈول بنانا اور اپنے مصرف میں لانا بلاشبہہ درست ہے۔منتقیٰ میں ہے:
’’عن أبي سعید أن قتادۃ بن النعمان أخبرہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قام فقال:إني کنت أمرتکم۔۔۔الحدیث،وفیہ:واستمتعوا بجلودھا،ولا تبیعوھا۔[1] رواہ أحمد۔قال الشوکاني:قال في مجمع الزوائد:إنہ مرسل صحیح الإسناد‘‘[2] انتھیٰ
[نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا:میں نے تم کو حکم دیا تھا۔۔۔اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس کے چمڑے سے فائدہ اٹھاؤ اور ان کو فروخت نہ کرو۔امام شوکانی نیل الاوطار میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے]
کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3]
کیا صاحبِ نصاب کے لیے میت کی قربانی کا گوشت کھانا درست ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ میت کی طرف سے جو وارث لوگ قربانی بقرِ عید میں دیتے ہیں،اس کا گوشت صاحبِ نصاب کو اور میت کے وارث کو کھانا بموجبِ شرع شریف کے درست ہے یا نہیں ؟
جواب:جامع ترمذی میں عبداﷲ بن مبارک کا یہ فتویٰ لکھا ہے کہ اگر میت کی طرف سے قربانی کی جائے تو قربانی کرنے والا اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے،بلکہ کل گوشت صدقہ کر دے۔واللّٰه أعلم بالصواب۔المجیب سید عبد الوہاب عفي عنہ
هو الموافق میرے نزدیک میت کی طرف سے جو قربانی کی جائے،اس کا گوشت صاحبِ نصاب کو اور قربانی کرنے والے کو کھانا درست ہے،نادرست ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] مسند أحمد (۴/ ۱۵) اس کی سند میں انقطاع اور ’’ابن جریج‘‘ مدلس ہے،لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔
[2] نیل الأوطار (۵/ ۱۹۱)
[3] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۲۴۲)