کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 513
باہم خوب اتحاد و اتفاق ہوگا اور اس باہم اتحاد و اتفاق سے سوراج حاصل ہو گا اور مسئلہ خلافت میں کامیابی ہو گی اور اسلام کے بڑے بڑے کام بہت آسانی سے انجام پائیں گے۔‘‘ سو واضح رہے کہ اسلام نے جیسے نصاریٰ اور انگریزوں سے ترکِ موالات کا حکم کیا ہے،اسی طرح پر ہنود اور کفار سے بھی ترکِ موالات کا حکم کیا ہے۔ہنود اور کفار سے دلی محبت اور موالات اور اتحاد رکھنے کا حکم ہرگز نہیں ہے۔
قال اللّٰه تعالیٰ:{ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ۔۔۔} [المائدۃ:۵۷]
یعنی اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جو تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل ٹھہراتے ہیں،یعنی وہ لوگ جو کتاب دیے گئے تم سے پہلے اور کافر لوگ۔‘‘
حاصل اس کا یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ اور کفار سے دوستی اور موالات مت کرو۔الحاصل وجوہِ مذکورہ بالا کی بنا پر صورتِ مسئولہ میں گائے کی قربانی کا ترک کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ بالصواب۔
کتبہ:محمد عبد الرحمن مبارکپوری،عفا اللّٰه عنہ (۹/ ذی الحجہ ۱۳۳۹ء یوم یک شنبہ)
الجواب صحیح۔ نعمت اﷲ عفی عنہ
جبکہ شریعتِ غرہ نے گاؤکی قربانی کو جائز رکھا اور اس کی وسعت ہم کو عطا کیا،بلکہ اس کو شعائرِ اسلام سے گردانا تو پھر ہم کو کسی انسان کی خوشی و رضا اور اتفاق و اتحاد کے خیال سے یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ اس شرعی وسعت میں تنگی پیدا کر دیں اور شعائرِ اسلام کو مٹا دیں،کیونکہ یہ صریح مخالفت ہے شریعت غرہ کے ساتھ جس کا عدمِ جواز ظاہر ہے۔شکر اﷲ،عفی عنہ۔
کیا چرم قربانی کی قیمت اپنے تصرف میں لانا درست ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ قیمت کھال قربانی کی اپنے مصرف میں لانا چاہیے یا نہیں ؟
جواب:قیمت کھال قربانی کی اپنے مصرف میں ہرگز نہیں لانا چاہیے،یہ حق فقرا و مساکین کا ہے،بلکہ اس میں سے قصاب کو اجرت بھی نہیں دینا چاہیے۔واللّٰه أعلم بالصواب۔
حررہ:السید ابو الحسن،عفی عنہ سید محمد نذیر حسین
هو الموافق کھال قربانی کی قیمت اپنے مصرف میں لانا ہرگز جائز نہیں ہے۔ایک ضعیف حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص قربانی کی کھال فروخت کرے گا تو اس شخص کی قربانی ہی نہیں۔درایہ تخریج ہدایہ میں ہے:
’’حدیث:من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیۃ لہ۔الحاکم والبیھقي من حدیث أبي ھریرۃ،بھذا أوردہ الحاکم في تفسیر سورۃ الحج‘‘[1]
[1] الدرایۃ (۲/ ۲۱۸) نیز دیکھیں:المستدرک (۴/ ۲۵۸) السنن الکبریٰ للبیھقي (۹/ ۲۶۰) صحیح الجامع (۶۱۱۸)