کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 509
مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ} اس سے مراد یہ ہے کہ ہدایا و ضحایا کے ذبح کے وقت اﷲ تعالیٰ کا نام لیا جائے] تفسیر معالم التنزیل میں ہے: ’’واختار الزجاج أن الأیام المعلومات یوم النحر وأیام التشریق،لأن الذکر علی بھیمۃ الأنعام یدل علی التسمیۃ علی نحرھا،ونحر الھدایا یکون في ھذہ الأیام‘‘[1] [زجاج کا مختار مذہب یہ ہے کہ ایامِ معلومات سے یومِ نحر اور ایامِ تشریق مراد ہیں،کیوں کہ ’’بھیمۃ الأنعام‘‘ پر ذکر ان کے نحر کے وقت اﷲ کا نام لینا ہے اور ہدایا کو انہی ایام میں نحر کیا جاتا ہے] ان سب باتوں کے معلوم ہونے کے بعد اہلِ علم سمجھ سکتے ہیں کہ مولوی عبدالرحمن صاحب پشاوری کا یہ فرمانا:’’من خالف ھذا فھو معاند و معارض‘‘ کیسی جسارت ہے؟! الحاصل آیت {وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ } سے گیارھویں،بارھویں،تیرھویں ذی الحجہ کو قربانی کرنے کا عدمِ جواز ثابت نہیں ہوتا،بلکہ اس سے جواز ثابت ہوتا ہے۔ پھر مولوی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ بخاری میں لکھا ہے: ’’باب سنیۃ الأضحیۃ،وقال ابن عمر:ھي سنۃ ومعروف،عن البراء قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:إن أول ما نبدأ بہ في یومنا ھذا أن نصلي،ثم نرجع فننحر،من فعلہ فقد أصاب سنتنا۔۔۔الخ‘‘[2] ’’فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سب کاموں سے روزِ عید ہم نماز پڑھتے ہیں،پھر فارغ ہو کر قربانی کرتے ہیں،سو جو کوئی ایسا کرے،یعنی اول نماز پڑھے،پھر متصل اس کے قربانی کرے،وہ بے شک سنت ہماری کو پہنچا۔‘‘ ’’یہ حدیث قولی و فعلی ہر دو سے سنت قربانی ایک ہی دن ثابت ہوئی۔‘‘ میں کہتا ہوں:اس حدیث سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بقر عید کے روز پہلے نماز پڑھنا،پھر بعد اس کے قربانی کرنا سنت ہے،پس جو شخص بقر عید کے روز پہلے نماز پڑھے،پھر بعد اس کے قربانی کرے وہ سنت کا عامل ہے اور جو شخص پہلے قربانی کر لے،پھر بعد اس کے نماز پڑھے،وہ سنت کا عامل نہیں،بلکہ اس کی یہ قربانی بھی جائز نہیں،اس واسطے کہ اسی حدیث میں ہے: (( ومن ذبح قبل فإنما ھو لحم،قدمہ لأھلہ،لیس من النسک في شییٔ )) [جس نے اس (نمازِ عید) سے پہلے ذبح کیا تو وہ صرف (عام) گوشت ہے،جو اس نے اپنے اہل کے لیے کیا،وہ کسی بھی لحاظ سے قربانی نہیں ہے]
[1] معالم التنزیل (۵/ ۳۸۰) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۲۲۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۶۱)