کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 506
بلاشبہہ یہ منقطع ہے،لیکن اس کو دارقطنی نے دو دوسری موصول سندوں سے بیان کیا ہے۔البتہ ان دونوں میں ضعف ہے۔ان میں سے ایک سند سے بزار نے بھی اسے بیان کیا ہے۔احمد اور بیہقی نے سلیمان بن موسی سے روایت کیا ہے اور وہ جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں،لیکن وہ بھی منقطع ہے] اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ گیارھویں،بارھویں،تیرھویں کو قربانی کرنا ناجائز نہیں۔اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے،لہٰذا قابلِ احتجاج نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے اور بعض طرق بعض کے مقوی ہیں،نیز اس آیت کے ساتھ:{وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ} [الحج:۲۸] سے اس حدیث کی تائید و تقویت ہوتی ہے،جیسا کہ ظاہر ہے،لہٰذا یہ حدیث ضرور قابلِ احتجاج ہے۔ الحاصل گیارھویں،بارھویں،تیرھویں ذوالحجہ کو قربانی کرنا بلاشبہہ جائز ہے اور داود ظاہری وغیرہ نے جو ان دنوں میں قربانی کو ناجائز بتایا ہے،ان کا قول کسی دلیلِ صحیح سے ثابت نہیں ہوتا۔جو دلیل وہ پیش کرتے ہیں،اس سے ان کا مطلوب ثابت نہیں ہوتا۔ان لوگوں کی دلیل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہے: ’’قال فأي یوم ھذا؟ قلنا:اللّٰه ورسولہ أعلم،فسکت حتی ظننا أنہ سیسمیہ بغیر اسمہ،فقال:ألیس یوم النحر؟۔۔۔‘‘[1] [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا:اﷲ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے،حتی کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اصل نام کے علاوہ کوئی نام بتائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا یہ قربانی کا دن نہیں ؟] استدلال کی تقریر یوں کرتے ہیں کہ ’’یوم النحر‘‘ میں ’’یوم‘‘ کا لفظ ’’النحر‘‘ کی طرف مضاف ہے اور ’’النحر‘‘ میں الف ولام جنس کا ہے،پس ’’یوم النحر‘‘ کے لفظ سے ثابت ہوا کہ بقر عید کا دن جنسِ نحر کا دن ہے اور جب جنسِ نحر کا دن فقط بقر عید کا دن ٹھہرا تو بقر عید کے روز کے سوا گیارھویں،بارھویں،تیرھویں کو قربانی کرنا ناجائز ہوا۔اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ’’النحر‘‘ میں الف و لام جنس کے لیے ہونا غیر مسلم ہے۔ہم کہتے ہیں کہ اس میں الف لام عہد کے لیے ہے اور معہود دسویں تاریخ کا نحر ہے،جن پر اس وقت عموماً عمل درآمد تھا۔وإذا جاء الاحتمال بطل الإستدلال۔علامہ قسطلانی نے شرح بخاری میں جمہور کی طرف سے اس دلیل کا جواب اس طرح نقل کیا ہے: ’’وأجاب الجمہور بأن المراد من النحر الکامل الأفضل،الألف واللام کثیرا ما تستعمل للکمال،نحو:’’ولکن البر۔۔۔‘‘ و ’’إنما الشدید الذي یملک نفسہ‘‘ ولذا قیل:الیوم الأول أفضل الأیام۔۔۔‘‘[2]
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۷) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۶۷۹) [2] إرشاد الساري للقسطلاني (۸/ ۳۰۱)