کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 504
أجمعین،أما بعد! واضح ہو کہ مولوی عبدالرحمان صاحب پشاوری کا یہ فتویٰ کہ ’’قربانی صرف ایک روز بقر عید کے دن سنت ہے اور گیارھویں،بارھویں،تیرھویں کو قربانی کرنی ناجائز ہے۔‘‘ نیا فتویٰ نہیں ہے،بلکہ داود ظاہری کا بھی یہی فتویٰ ہے اور ابن سیرین اور حمید بن عبدالرحمن کا بھی یہی قول بیان کیا جاتا ہے۔رہی یہ بات کہ فتویٰ کیسا ہے؟ مدلل اور قابلِ قبول ہے یا نہیں ؟ سو واضح رہے کہ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بقر عید کے دن قربانی کرنا اولیٰ اور افضل ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ(رضی اللہ عنہم)کے زمانے میں عموماً اسی پر عمل در آمد تھا،لیکن ساتھ اس کے گیارھویں،بارھویں،تیرھویں کو قربانی ہرگز ناجائز نہیں۔یہی مذہب ہے تمام سلف و خلف(رحمہم اللہ)کا اور یہی حق ہے،موطا امام مالک میں ہے: ’’عن نافع،عن عبد اللّٰه بن عمر قال:الأضحی یومان بعد الأضحی‘‘[1] یعنی حضرت عبداﷲ بن عمر(رضی اللہ عنہما)نے کہا کہ یومِ اضحی کے بعد دو دن قربانی کے ہیں۔ سند اس روایت کی بہت صحیح ہے،نیز اسی کتاب میں ہے:’’مالک بلغہ عن علي بن أبي طالب مثل ذلک‘‘[2] یعنی حضرت علی( رضی اللہ عنہ)سے بھی عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے مثل مروی ہے۔حافظ ابن عبدالبر نے اس روایت کو زر کے طریق سے بایں لفظ روایت کیا ہے: ’’عن علي قال:الأیام المعدودات یوم النحر ویومان بعدہ،اذبح في أیھا شئت وأفضلھا أولھا‘‘[3] یعنی علی(رضی اللہ عنہ)نے کہا کہ ایامِ معدودات سے مراد یومِ نحر ہے اور دو دن اس کے بعد،ان تینوں دنوں میں سے جس روز چاہو قربانی کرو اور ان میں سے پہلا دن افضل ہے۔ امام مالک نے علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بلاغاً روایت کیا ہے۔علامہ زرقانی شرح موطا (۱/۲۶) میں لکھتے ہیں:’’بلاغہ لیس من الضعیف‘‘ یعنی امام مالک کا بلاغ ضعیف نہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان دونوں روایتوں سے صاف معلوم ہوا کہ گیارھویں اور بارھویں کو قربانی کرنا ناجائز نہیں۔اگر کوئی کہے کہ یہ دونوں روایتیں موقوف ہیں،یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما اور علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور روایاتِ موقوفہ حجت نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں روایتیں اگرچہ موقوف ہیں،لیکن حکماً مرفوع ہیں،اس واسطے کہ یہ ایسا قول ہے جس میں رائے کو دخل نہیں۔علامہ زرقانی لکھتے ہیں: ’’قال الطحاوي:مثل ھذا لا یکون رأیا فدل أنہ توقیف‘‘[4]
[1] موطأ الإمام مالک (۲/ ۴۷۸) [2] المصدر السابق۔ [3] التمھید لابن عبد البر (۲۳/ ۱۹۷) [4] شرح الزرقاني (۳/ ۱۰۳)