کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 50
حال ہوا کہ ناموں کی تحقیق کرنا میرے لیے ایک دلچسپ مشغلہ بن گیا۔ ’’ناموں کے ساتھ ساتھ مولانا متن کی صحت کا بھی بڑا اہتمام کرتے تھے۔ممکن نہیں تھا کہ قراء ت کے وقت کوئی لفظ زبان سے غلط نکلے اور وہ اس غلطی کا نوٹس نہ لیں۔ایک مرتبہ میں نے ’’عَرَفَ‘‘ کے لفظ کو باب ’’سَمِعَ‘‘ سے پڑھ دیا۔مولانا نے فوراً ٹوکا ’’أَنَا لَا أَعْرِفُ عَرِفَ‘‘ (میں ’’عَرِفَ‘‘ سے واقف نہیں ہوں)مجھے معلوم نہیں کہ کیوں یہ یقین تھا کہ میں نے صحیح پڑھا ہے۔چنانچہ میں نے بڑے زعم کے ساتھ جواب دیا کہ ’’أَمَّا أَنَا فَلَا أَعْرِفُ عَرَفَ‘‘ (اور یہ خاکسار آپ کے ’’عَرَفَ‘‘ سے واقف نہیں ہے) اس گستاخانہ فقرہ پر کوئی اور ہوتا تو غالباً آپے سے باہر ہو جاتا،لیکن مولانا نے اگر کہا تو یہ کہا کہ ’’رَاجِعِ اللُّغَۃَ‘‘ (اگر تمھیں اس قدر اصرار ہے تو لغت دیکھ لو) سامنے قاموس پڑی ہوئی تھی،میں نے بڑے غرہ کے ساتھ اس کی متعلقہ جلد گھسیٹی اور ’’عَرَفَ‘‘ کا پورا کالم پڑھ ڈالا،لیکن ’’عَرِفَ‘‘ باب ’’سَمِعَ‘‘ سے اپنے معروف معنی میں میرے ذہن کے سوا اور کہیں وجود رکھتا ہو تو تب ملے۔ ’’مولانا نے تاڑ لیا کہ مجھے اپنے خیال میں سخت ناکامی ہوئی ہے اور قدرتی طور پر اس کا رد عمل بھی مجھ پر ایک سخت قسم کی کھسیاہٹ کی شکل میں ہو گا۔لیکن ان کی شفقت نے یہ گوارہ نہ کیا کہ وہ میری گستاخی کا مجھ سے انتقام لیں اور مجھے شرمندہ ہونے کے لیے چھوڑ دیں،فوراً میری تسلی کے لیے عربی میں فرمایا:’’کوئی بات نہیں ! اصیل گھوڑا بھی ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے کان پکڑے کہ اب میں کبھی مولانا صاحب کے سامنے اپنی عربی دانی کے زعم میں اس قسم کا کوئی بھی فقرہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔ ’’متنِ حدیث کی حفاظت کا بحیثیت ایک شیخ حدیث کا مولانا کو جو اہتمام تھا،اس کا اندازہ بھی ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ایک دفعہ میں نے قراء ت کرتے ہوئے ایک حدیث کی عبارت ایک خاص تالیف کے ساتھ پڑھی۔مولانا نے اس کو ٹوکا اور ایک دوسرے نہج سے اس کو پڑھا۔میں نے فوراً قراء ت کی صحت پر اصرار کیا اور نحو کے اصولوں کے مطابق اس کی ترکیب بیان کر دی۔مولانا نے جواب میں فرمایا کہ نحو کے اعتبار سے تمھارا پڑھنا غلط نہیں ہے،لیکن میں نے اپنے شیخ سے یوں ہی سنا ہے۔مولانا کی یہ بات مجھے بڑی شاندار معلوم ہوئی۔میری آنکھوں کے سامنے متنِ حدیث کی صحت کی عظمت کی ایک تصویر کھینچ گئی اور دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش مجھے بھی حدیث پڑھانے کامرتبہ حاصل ہو اور میں بھی اپنے شاگردوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس حدیث کی روایت اپنے شیخ سے اس طرح سنی ہے۔ ’’اسما اور الفاظ کے بعد معانی کی باری آتی ہے،لیکن اس کے بارے میں مجھے کہنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔مولانا کی عظیم الشان کتاب ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ ان کے فضل و کمال کی ایک لازوال شہادت موجود ہے۔