کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 493
جانور خرید لیا،بعد میں اس کے اندر کوئی مانع عیب پیدا ہو گیا،اگر تو وہ غنی ہے تو اس کی جگہ اور جانور خرید لے،کیوں کہ غنی پر شرعاً ابتدا سے یہ واجب ہے نہ کہ خریدنے کے وقت سے اور فقیر پر قربانی کی نیت سے خریدنے کے ساتھ ہی واجب ہو گیا] خصی کی قربانی بھی جائز ہے،کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی کی قربانی کی ہے: ’’وعن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قالت:ضحیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بکبشین سمینین عظیمین أملحین أقرنین موجوئین۔رواہ أحمد‘‘[1] انتھیٰ ما في منتقیٰ الأخبار۔ [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے،بڑے موٹے،بڑے قد آور،سیاہ آنکھ،سینگ دار خصی ذبح کیے] بہت سی حدیثیں اس مضمون کی آئی ہیں،بخوفِ تطویل ایک ہی پر اکتفا کیا۔حنفی مذہب میں بھی ہے: ’’ویجوز أن یضحي بالجماء والخصي،لأن لحمھما أطیب،وقد صح عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ ضحیٰ بکبشین أملحین موجوئین‘‘[2] انتھیٰ ما في الھدایۃ ملخصاً بقدر الحاجۃ۔ [قربانی میں خصی جانور جائز ہے،کیوں کہ اس کا گوشت زیادہ مزے دار ہوجاتا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خصی مینڈھے قربانی میں ذبح کیے] 6۔قربانی میں سے ازروئے قرآن و حدیث کے خود کھائے اور فقیروں محتاجوں کو کھلائے۔کوئی تقید نہیں کہ کس قدر کھائے اور کس قدر فقیروں کو دے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: {فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ} [الحج:۳۶] ’’کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ بے سوال فقیر اور سوال کرنے والوں کو۔‘‘ حنفی مذہب میں مستحب ہے کہ تہائی فقیروں،محتاجوں کو دے: ’’یأکل من لحم الأضحیۃ،ویطعم الأغنیاء والفقراء،ویدخر،ویستحب أن لا ینقص الصدقۃ عن الثلث‘‘[3] انتھیٰ ما في الھدایۃ ملخصاً۔ [قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائے،اغنیا اور فقرا کو بھی کھلائے اور ذخیرہ بھی کرے،نیز یہ مستحب ہے کہ تیسرے حصے سے کم فقرا میں تقسیم نہ کرے] 7۔قصاب کی اجرت قربانی سے نہ دے،اپنے پاس سے علاحدہ دے: ’’عن علي رضی اللّٰه عنہ قال:بعثني النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقمت علیٰ البدن فأمرني فقسمت لحومھا،ثم
[1] مسند أحمد (۶/ ۱۳۶) نیل الأوطار (۵/ ۱۸۰) [2] الھدایۃ (۴/ ۷۴) [3] الھدایۃ (۴/ ۷۶)