کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 49
مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مرحوم کی ذات میں بہت سے اوصاف جمع فرما دیے تھے۔وہ تمام علومِ مروجہ میں مہارت رکھتے تھے۔وہ اونچے درجے کے محقق اور بلند پایہ مصنف تھے۔تدریس کا انھیں خاص ملکہ حاصل تھا اور حدیث میں وہ امامت پر فائز تھے۔‘‘[1] مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۹۷ء) کا شمار حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔وہ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کے علم و فضل اور علمِ حدیث میں یگانہ روزگار ہونے کے بڑے معترف تھے۔ہفت روزہ ’’المنیر‘‘ (Al MUNEER) جس کے مدیرِ اعلیٰ حکیم عبد الرحیم اشرف رحمہ اللہ تھے۔اگست ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں مولانا اصلاحی کا مبارک پوری رحمہ اللہ پر ایک خصوصی مضمون شائع ہوا تھا،اس مضمون میں مولانا اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں: ’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ فی الواقع اپنے فن میں ماہر تھے۔جس وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا،نہ صرف عربی علوم کی تحصیل سے فارغ ہو چکا تھا،حدیث کی بھی بہت سی چیزیں نگاہوں سے گزر چکی تھیں۔کچھ عام درس میں،کچھ مطالعہ کے سلسلہ میں۔مجھے یہ گمان تھا کہ جب مولانا پڑھانا شروع کریں گے تو انھیں اندازہ ہوگا کہ میں کن صلاحیتوں کا مالک ہوں،لیکن ترمذی کے پہلے ہی سبق میں مجھے محسوس ہوا کہ اور چاہے میں کچھ جانتا ہوں یا نہ جانتا ہوں،لیکن حدیث سے تو میں بالکل ہی نا بلد ہوں۔سب سے پہلا تلخ تجربہ مجھے راویوں کے ناموں سے ہوا۔مولانا نے جب ایک ایک نام پر ٹوکنا شروع کیا تو اُن کے ٹوکنے کا انداز لاکھ مشفقانہ سہی،لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھ پر طیش،شرمندگی اور گھبراہٹ کی ایسی ملی جلی کیفیت طاری ہوئی کہ مجھے سر سے پاؤں تک پسینہ آ گیا۔ ’’وہ ایک ایک نام کی صحت کا اس قدر اہتمام کرتے اورایک ہی طرح کے ناموں میں ایسے ایسے باریک فرق بتاتے کہ شروع شروع میں تو مجھے گمان ہوا کہ میں اس چیز پر کبھی قابو پا ہی نہیں سکوں گا،لیکن مولانا نے مجھے مایوسی کے صدمہ سے بچایا۔انھوں نے فرمایا کہ تمھیں اس چیز سے بالکل پہلی مرتبہ سابقہ پیش آیا ہے،اس لیے شبہہ نہیں کہ یہ چیز مشکل ہے اور اساتذہ حدیث اس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں،لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔کچھ عرصہ مزاولت کے بعد تمھارے لیے بھی ایک جانی پہچانی چیزبن جائے گی۔چنانچہ مولانا کی یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی۔ہفتہ دو ہفتہ سے زیادہ کی مدت نہیں گزری ہو گی کہ کم از کم ترمذی کے رجال کا تو میں ماہر بن گیا۔یا تو اس چیز سے وحشت ہوتی تھی،یا یہ
[1] دبستانِ حدیث،(ص:۲۰۳)