کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 489
في الھدایۃ ملخصاً بقدر الحاجۃ۔ [قربانی واجب ہے؛ ہر ایک مسلمان،مقیم،دولت مند پر اضحی کے دن،اپنے نفس سے بھی اور اپنے بچوں اور عورتوں کی طرف سے بھی،کیوں کہ ہمیں اتنی دولت مندی کی روایت پہنچی ہے،جس سے صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے] 2۔جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھے،اس کو چاہیے کہ جب سے ذی الحجہ کا چاند دیکھے،تب سے قربانی تک سر وریش کا بال و ناخن نہ لے۔ ’’عن أم سلمۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( إذا رأیتم ھلال ذي الحجۃ،وأراد أحدکم أن یضحي فلیمسک عن شعرہ وأظفارہ )) رواہ الجماعۃ إلا البخاري‘‘[1] کذا في منتقی الأخبار۔ [امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بلاشبہہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو،وہ اپنے بالوں کو (نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے] 3۔اس کا وقت نماز کے بعد ہے،قبل نماز کے جائز نہیں اور اگر کوئی قبل نماز کے کرے گا تو صحیح نہ ہوگا،دوسرا جانور کرنا ہوگا،کیونکہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنت یہ ہے کہ پہلے نماز پڑھے،پھر قربانی کرے اور جس نے پہلے نماز کے قربانی کی،اس کی قربانی صحیح نہ ہوئی،وہ اس کے کھانے کا گوشت ہے،دوسری قربانی کرے۔ ’’عن البراء قال:قال النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( إن أول ما نبدأ بہ في یومنا ھذا أن نصلي،ثم نرجع فننحر،من فعلہ فقد أصاب سنتنا،ومن ذبح قبل فإنما ھو لحم قدمہ لأھلہ،لیس من النسک في شییٔ )) الحدیث۔[2] [بلاشبہہ ہم آج کے دن کی ابتدا نماز سے کریں گے،پھر واپس آ کر قربانی کرنے کا فریضہ سرانجام دیں گے،جو شخص اس طرح کرے گا وہ ہمارے طریقے کو پا لے گا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ایسا گوشت ہے جسے اس نے اپنے اہلِ خانہ کے لیے تیار کیا ہے،وہ کسی درجے میں قربانی نہیں ] حنفی مذہب میں بھی یہی وقت ہے،مگر دیہاتی لوگوں کے لیے لکھا ہے: ’’وقت الأضحیۃ یدخل بطلوع الفجر من یوم النحر إلا أنہ لا یجوز لأھل الأمصار الذبح حتی یصلي الإمام العید فأما أھل السواد فیذبحون بعد الفجر‘‘[3] کذا في الھدایۃ۔ [قربانی کا وقت یوم النحر کی فجر طلوع ہونے سے شروع ہوجاتا ہے،لیکن شہر والے اس وقت تک قربانی ذبح
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۷۷) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۲۲۵) [3] الھدایۃ (۴/ ۷۲)