کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 488
واجبۃ عن الجمھور۔۔۔وعن محمد بن الحسن:ھي سنۃ غیر مرخصۃ في ترکھا،وقال الطحاوي:وبہ نأخذ،ولیس في الآثار ما یدل علیٰ وجوبھا،انتھیٰ،وأقرب ما یتمسک بہ للوجوب حدیث أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ رفعہ:من وجد سعۃ فلم یضح فلا یقربن مصلانا۔أخرجہ ابن ماجہ و أحمد،ورجالہ ثقات،لکن اختلف في رفعہ ووقفہ،و الموقوف أشبہ بالصواب،قالہ الطحاوي وغیرہ،مع ذلک فلیس صریحا في الإیجاب‘‘[1] انتھیٰ ملخصاً [ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ قربانی کو سنت کہہ کر ان لوگوں کی مخالفت کی ہے،جو اس کو واجب کہتے ہیں۔ابن حزم نے کہا ہے:کوئی صحابی بھی وجوب کا قائل نہیں ہے اور جمہور اس کو غیر واجب کہتے ہیں۔محمد بن حسن نے کہا:یہ سنت ہے،لیکن چھوڑنا نہ چاہیے۔طحاوی نے کہا:ہمارا یہی مذہب ہے اور کوئی حدیث اس کے وجوب پر دلالت نہیں کرتی۔زیادہ سے زیادہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس کو طاقت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔لیکن اس کے مرفوع یا موقوف ہونے میں اختلاف ہے اور اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے،پھر یہ وجوب میں صریح بھی نہیں ہے] نیز اس کے لیے صاحبِ نصابِ زکات ہونا بھی شرط نہیں،کیونکہ کوئی دلیل اس شرط پر نہیں ہے،بلکہ صرف استطاعت یعنی قدرت ہونی چاہیے،جیسا کہ حدیث ابوہریرہ مذکورہ میں ہے۔نیز اقامت،یعنی مسافر نہ ہونا بھی شرط نہیں ہے،کیونکہ اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے،بلکہ دلیل سے اس کا خلاف ثابت ہے کہ بخاری نے مسافر کی قربانی کرنے کا ایک باب منعقد کیا ہے اور اس میں حدیث لایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرِ مکہ میں قربانی کی: ’’باب الأضحیۃ للمسافر والنساء،فیہ إشارۃ إلیٰ خلاف من قال:إن المسافر لا أضحیۃ علیہ‘‘[2] انتھیٰ ما في فتح الباري۔ [مسافر کی قربانی کا باب باندھ کر ان لوگوں کا رد کیا ہے،جو کہتے ہیں کہ مسافر پر قربانی نہیں ہے] اس سے صراحتاً مستفاد ہوتا ہے کہ اقامت شرط نہیں ہے،لیکن مذہبِ حنفی میں واجب ہے صاحبِ نصابِ زکات پر،جیسا کہ صدقۂ فطر میں بشرط اس کے کہ مسافر نہ ہو: ’’الأضحیۃ واجبۃ علیٰ کل حر مسلم مقیم موسر في یوم الأضحیٰ علیٰ نفسہ وعن ولدہ الصغار والنساء،لما روینا من اشتراط السعۃ،ومقدارہ ما یجب بہ صدقۃ الفطر‘‘[3] انتھیٰ ما
[1] فتح الباري (۱۰/ ۳) [2] فتح الباري (۱۰/ ۵) [3] الھدایۃ (۴/ ۷۰)