کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 487
کتاب الأضحیۃ والعقیقۃ قربانی کے احکام و مسائل احکامِ قربانی: سوال:احکامِ قربانی کیا ہیں ؟ تفصیلاً بیان فرمائیں۔ جواب:1۔اضحیہ یعنی قربانی میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا سنت مؤکدہ؟ مگر مذہب صحیح و محقق یہی ہے کہ سنت مؤکدہ ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے۔بخاری نے ایک باب اس کی سنیت کا منعقد کیا ہے اور یہی دلائل اس کی سنیت پر ہیں [1] بخوف تطویل اختصار کیا،واجب نہیں ہے،کیونکہ وجوب پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ کسی صحابی سے وجوب منقول ہے۔حدیث جو ابن ماجہ میں ہے کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص باوجود قدرت کے قربانی نہ کرے،وہ ہمارے مصلے میں نہ حاضر ہو۔ ’’عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:قال من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا‘‘[2] [ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلاشبہہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص باوجود قدرت کے قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے] اول تو اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے،اصوب یہی ہے کہ موقوف ہے۔دوسرے اس سے وجوب نہیں نکلتا،بلکہ تاکید نکلتی ہے،جیسا کہ کچے پیاز وغیرہ کے کھانے میں فرمایا کہ مسجد میں کھا کر نہ آؤ،حالانکہ بالاتفاق اس سے حرمت نہیں نکلتی،اسی واسطے حضرت سے حلت ثابت ہے۔کما لا یخفیٰ علیٰ من لہ فہم سلیم نیز سنیت دلائل سے ثابت ہے،جن کی تفصیل یہاں اختصاراً نہیں کی گئی۔ قال الحافظ ابن حجر في فتح الباري:’’وکأنہ ترجم بالسنۃ إشارۃ إلیٰ مخالفۃ من قال بوجوبھا۔قال ابن حزم:لا یصح عن أحد من الصحابۃ أنھا واجبۃ،وصح أنھا غیر
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۲۲۵۔۵۲۲۶) [2] مسند أحمد (۲/ ۳۲۱) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۱۲۳) المستدرک (۴/ ۲۵۸) اس حدیث کو امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح،جبکہ علامہ ناصر الدین البانی نے حسن قرار دیا ہے۔نیز اس کے موقوف اور مرفوع ہونے کے متعلق امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’أوقفہ عبد اللّٰه بن وھب،إلا أن الزیادۃ من الثقۃ مقبولۃ،وأبو عبد الرحمن المقریٔ فوق الثقۃ‘‘ (المستدرک:۴/ ۲۵۸) یعنی اس کا مرفوع ہونا ہی راجح ہے۔