کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 481
لأن نفي الحکم عن غیر الطعام إنما ھو لمفھوم اللقب،وھو غیر محمول بہ عند الجمھور،وما کان کذلک لا یصلح للتقیید علیٰ ما تقرر في الأصول‘‘ انتھیٰ [احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتکار حرام ہے اور آدمیوں اور جانوروں کی غذا اور دوسری چیزوں کے احتکار میں کوئی فرق نہیں ہے۔وہ جو بعض روایات میں طعام کے لفظ کی قید بیان ہوئی ہے،وہ بقیہ روایات مطلقہ کو مقید نہیں کر سکتیں،بلکہ وہ تمام افراد میں سے ایک فرد کی تنصیص ہے کہ جس پر مطلق کا اطلاق ہو سکتا ہے،کیوں کہ غیر طعام سے حکم کی نفی لقب کے مفہوم کی وجہ سے ہے اور جمہور کا اس پر عمل نہیں ہے اور جس کی حیثیت اس طرح کی ہو،وہ مقید نہیں کر سکتا،یہ ایک اصولی مسئلہ ہے] علامہ محمد بن اسماعیل امیر سبل السلام (۲/ ۱۴) میں لکھتے ہیں: ’’ولا یخفیٰ أن الأحادیث الواردۃ في منع الاحتکار وردت مطلقۃ ومقیدۃ بالطعام،وما کان من الأحادیث علیٰ ھذا الأسلوب فإنہ عند الجمھور لا یقید فیہ المطلق لعدم التعارض بینھما،بل یبقیٰ المطلق علیٰ إطلاقہ‘‘ انتھیٰ [مخفی نہ رہے کہ احتکار کی ممانعت میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں،وہ طعام سے مطلق بھی ہیں اور مقید بھی،اور جو اس طرح کی احادیث ہوں،جمہور کے نزدیک مطلق کو مقید نہیں کر سکتیں،کیوں کہ ان میں کوئی تعارض نہیں ہے،بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر رہیں گی] دیسی کوے کا حرام ہونا اقوالِ علما سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’وقد اتفق العلماء علیٰ إخراج الغراب الصغیر الذي یأکل الحب،ویقال لہ:غراب الزرع ویقال لہ:الزاغ،من ذلک،وأفتوا بجواز أکلہ فبقي ما عداہ من الغربان ملتحقا بالأبقع‘‘[1] یعنی علما نے بالاتفاق اس چھوٹے کوے کو جو دانہ کھاتا ہے اور جس کو غراب الزرع اور زاغ کہتے ہیں،حکمِ حرمت سے خارج کر دیا ہے اور فتویٰ دیا ہے کہ اس کا کھانا جائز ہے،پس اس چھوٹے کوے دانہ خور کے سوا باقی اور کوے غراب ابقع کے ساتھ ملحق ہیں۔ اس عبارت سے واضح ہوا کہ بجز غراب الزرع کے باقی اور تمام کوے غراب ابقع کے ساتھ ملحق ہو کر حرام ہوں گے،نیز دیسی کوے زمانہ نبوی و زمانہ صحابہ و زمانہ تابعین و تبع تابعین میں موجود تھے،مگر خیر القرون کے لوگوں میں سے کسی سے دیسی کوے کا کھانا یا اس کے حلال ہونے کا فتویٰ دینا ہرگز ثابت نہیں ہے،بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے،جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی دونوں روایتوں سے ظاہر ہوا،پس اس وجہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیسی کوے
[1] فتح الباري (۴/ ۳۸)