کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 474
وعن معاذ بن جبل في رجل أسلم ثم تھوَّد:لا أجلس حتی یقتل،قضاء اللّٰه ورسولہ،فأمر بہ فقتل۔[1] متفق علیہ۔واللّٰه أعلم بالصواب۔ سید محمد نذیر حسین [حضرت معاذ بن جبل نے ایک آدمی کے متعلق کہا:جو پہلے مسلمان تھا،لیکن بعد میں یہودی ہوگیا کہ میں اس وقت تک نہ بیٹھوں گا،جب تک اس کو قتل نہ کیا جائے گا،پھر اس کے متعلق حکم دیا گیا تو اسے قتل کر دیا گیا] هو الموافق یہ بات صحیح ہے۔جن مبتدعین مسلمانوں کی بدعت کفر کو پہنچی ہے،وہ اہلِ کتاب کا حکم نہیں پا سکتے۔رہی یہ بات کہ وہ مرتد کہلائیں گے یا نہیں اور ان کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جائے گا یا نہیں ؟ سو اس میں تفصیل ہے،وہ یہ کہ جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی ایسے امر کا انکار کرے،جس کا ثبوت علی سبیل التواتر ہو اور اس کے ثبوت میں علما کا اختلاف نہ ہو،بلکہ اس کا ضروریاتِ دین سے ہونا متفق علیہ ہو تو ایسا شخص مرتد کہلائے گا اور اس کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جائے گا،لیکن جو مسلمان شخص ایسا نہ ہو،وہ نہ مرتد کہلائے گا اور نہ اس کے ساتھ مرتدین کا سا معاملہ کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر شرح نخبہ میں بدعت کی بحث میں،جو اسبابِ جرح سے ایک سبب ہے،لکھتے ہیں: ’’والتحقیق أنہ لا یرد کل مکفر ببدعۃ،لأن کل طائفۃ تدعي أن مخالفیھا مبتدعۃ،وقد تبالغ فتکفر مخالفیھا،فلو أخذ ذلک علیٰ الإطلاق لاستلزم تکفیر جمیع الطوائف فالمعتمد أن الذي ترد روایۃ من أنکر أمرا متواترا من الشرع معلوما من الدین ضرورۃ وکذا من اعتقد عکسہ،فأما من لم یکن بھذہ الصفۃ،وانضم إلی ذلک ضبط لما یرویہ مع ورعہ وتقواہ فلا مانع من قبولہ‘‘[2] انتھیٰ [تحقیق یہ ہے کہ ہر ایسے شخص کی روایت رد نہ کی جائے گی،جس کو کسی بدعت کی وجہ سے کافر قرار دیا گیا ہو،کیوں کہ ہر فرقہ اپنے مخالفین کو بدعتی کہتا ہے اور مبالغہ کرتے ہوئے ان کو کافر تک کہہ دیتا ہے،اگر اس کو مطلقاً کیا جائے تو تمام طواف کی تکفیر لازم آئے گی،ہاں جو شخص کسی امرِ متواتر یا شریعت کے کسی ایسے حکم کا منکر ہو،جس کا اسلام سے ہونا یقینی ہو یا اس طرح کا عقیدہ رکھے تو اس کی روایت مردود ہو گی،لیکن جو اس طرح کا نہ ہو اور اس کے ساتھ ہی متقی اور پرہیزگار بھی ہو تو اس کی روایت قبول ہوگی] حافظ کے اس کلام سے تفصیلِ مذکور کا ثبوت ظاہر ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3]
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۵۲۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۷۳۳) [2] نزھۃ النظر (ص:۱۲۷) [3] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۳۴۳)