کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 470
اور فوق العقدہ و تحت اللحیین جو جگہ ہے،وہ من جملہ حلق کے ہے اور حلق میں ذبح کرنا جائز ہے،پس فوق العقدہ اور تحت اللحیین ذبح کرنا جائز ہے۔فوق العقدہ اور تحت اللحیین اس کا منجملہ حلق کے ہونا ایک ظاہر بات ہے اور اطبائے مشرحین کے کلام سے بھی اس جگہ کا من جملہ حلق کے ہونا ثابت ہوتا ہے۔بحر الجواہر میں ہے: ’’الحلق۔بالفتح۔عضو مشتمل علیٰ الفضاء الذي فیہ مجریٰ الطعام والنفس،کذا قال مولانا نفیس،وقال الطبري:ھو اسم لجمیع الحنجرۃ والحلقوم والمري والعضلات الموضوعۃ علیہ فیشمل اللوزتین وأصول اللسان والعضلات الموضوعۃ من خارج وأصول الأذنین من داخل و خارج‘‘[1] انتھیٰ [حلق ایک عضو ہے،جو اس فضا پر مشتمل ہے،جس میں کھانے اور سانس لینے کی نالیاں ہیں۔طبری نے کہا ہے:حلق تمام گلے اور حلقوم اور مری اور بچھے ہوئے پٹھوں کا نام ہے اور یہ لوزتین اور زبان کی جڑ اور کانوں کے اندر اور باہر پھیلے ہوئے پٹھوں پر مشتمل ہے] حلق میں ذبح کے جائز ہونے کا ثبوت یہ ہے: ’’عن ابن عباس:الذکاۃ في الحلق واللبۃ۔رواہ البخاري معلقا في باب النحر و الذبح۔قال الحافظ في فتح الباري:وصلہ سعید بن منصور و البیھقي من طریق أیوب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس أنہ قال:الذکاۃ في الحلق واللبۃ،وھذا إسناد صحیح،وأخرجہ سفیان الثوري في جامعہ عن عمر مثلہ،وجاء مرفوعا من وجہ آخر،واللبۃ۔بفتح اللام وتشدید الموحدۃ۔ھي موضع القلادۃ من الصدر،وھي المنحر‘‘[2] انتھیٰ کلام الحافظ۔ [ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:ذبح حلق اور لبہ کے درمیان ہے،اور لبہ وہ جگہ ہے جہاں ہار وغیرہ ڈالا جاتا ہے] جو اہلِ علم فوق العقدہ و تحت اللحیین ذبح کو جائز بتاتے ہیں،ان کا قول صحیح ہے اور جو علما عدمِ جواز کے مدعی ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’فوق العقدہ نہ حلق ہے اور نہ قطع عروقِ ثلاثہ کا وہاں پایا جاتا ہے‘‘ ان کا یہ قول صحیح نہیں ہے۔اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ فوق العقدہ منجملہ حلق کے ہے اور ذبح میں جو چار رگوں کا قطع ہونا علیٰ اختلاف الاقوال ضروری بتایا جاتا ہے،وہ حلقوم اور مری اور ودجین ہیں،سو ذبح فوق العقدہ میں ان چاروں رگوں کا ذبح ہونا بلاشبہہ پایا جاتا ہے۔مری (مجریٰ طعام و شراب) کا قطع ہونا اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ مری کا مبدا اقصائے فم ہے،پس ذبح فوق العقدہ میں مری کا قطع ہونا ضروری ہے اور چونکہ مری حلقوم (مجری نفس) کے ساتھ ملاصق ہے،اس لیے حلقوم کا کٹنا بھی ضروری ہے اور ودجین (دونوں شہ رگ) حلقوم کو دو جانب سے محیط ہے،اس لیے ودجین کا کٹنا بھی ضروری ہے۔قانونچہ میں ہے:
[1] بحر الجواھر للھروي (ص:۹۳،أ) [2] فتح الباري (۹/ ۶۴۱)