کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 47
تھی۔آپ نے زیادہ توجہ علمِ حدیث کی جانب کی اور اس میں اتنا کمال پیدا کر لیا کہ ان کا شمار ممتاز علماے حدیث میں ہونے لگا۔حدیث کی روایت و تحریر میں ان کو بڑا انہماک تھا۔حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ مسائل و فتاویٰ کا جواب بھی احادیث کی روشنی میں دیتے تھے۔احادیث سے استنباطِ مسائل میں ان کو بڑا ملکہ حاصل تھا۔وہ بڑی چھان بین اور محنت سے احادیث کے نکات و مطالب کا استخراج کرتے تھے۔بہرحال یہ حقیقت ہے اور اس میں کسی قسم کا مبالغہ نہیں کہ حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ علمِ حدیث میں بہت ممتاز اور نہایت بلند مقام رکھتے تھے۔ علماے حدیث اور سیرت نگاروں نے علمِ حدیث میں ان کی ژرف نگاہی اور یگانہ روز گار ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۶۶ء) لکھتے ہیں: ’’فنِ حدیث میں آپ کا رتبہ معمولی نہ تھا،جیسا کہ آپ کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے۔مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ (حنفی) نے نصرتِ تقلید میں کیا کیا نہ کیا کہ اسی شوق میں ’’بلوغ المرام من أدلۃ الأحکام‘‘ کے نہج پر حدیث کی ایک کتاب ’’آثار السنن‘‘ لکھ ڈالی،جس میں اپنے شعارِ تقلید کی حدیثیں چن چن کر بغیر تمیز غث و ثمین بھر دیں۔مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے شوق صاحب کی ندرت پر توجہ فرمائی اورایک ضخیم کتاب ’’أبکار المنن في تنقید آثار السنن‘‘ لکھی،جس سے شوق صاحب کی تمام کاوشوں کا پتا چل گیا۔‘‘[1] مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے علم و عمل سے بھرپور نوازا تھا۔دقتِ نظر،حدتِ ذہن،ذکاوتِ طبع اور کثرتِ مطالعہ کے اوصاف و کمالات نے آپ کو جامع شخصیت بنا دیا تھا۔خاص طور سے علمِ حدیث میں تبحر و امامت کا درجہ رکھتے تھے۔روایتِ حدیث کے ساتھ درایت کے مالک اور جملہ علومِ آلیہ و عالیہ میں یگانہ روزگار تھے۔قوتِ حافظہ بھی خدا داد تھی۔بینائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی درسی کتابوں کی عبارتیں زبانی پڑھا کرتے تھے اور ہرقسم کے فتاویٰ لکھوایا کرتے تھے۔فقہا خاص طور سے احناف کے بارے میں نہایت شدید رویہ رکھتے تھے،مگر یہ معاملہ صرف تصانیف کی حد تک محدود تھا،جو سراسر علمی و تحقیقی تھا۔ ’’مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ براہِ راست عامل بالحدیث تھے۔صفاتِ باری تعالیٰ کے سلسلے میں ’’مَا وَرَدَ بِہِ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ‘‘ پر ایمان رکھتے تھے۔’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں اس قسم کے مختارات بھی ہیں۔مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کے تبحرِ علمی اور علمِ حدیث میں مہارت پر ان کی تصانیف شاہد ہیں۔ان کی تصنیف ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے عالمِ اسلام اور عرب ممالک میں جو شہرت و مقبولیت دی ہے،شاید متاخرین
[1] تراجم علماے حدیث ہند،(ص:۴۰۲)