کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 468
فخزقت فکل۔فیہ أن الخزق شرط الحل‘‘[1] انتھیٰ
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تو تیر پھینکے اور اﷲ کا نام لے اور وہ خون نکال دے تو کھا لیا کرو اور اگر خون نہ نکلے تو نہ کھایا کر۔معراض اور بندوق یا غلیلہ کا شکار اگر ذبح کر لو تو کھاؤ،ورنہ نہ کھاؤ]
موطا امام محمد میں ہے:
’’أخبرنا مالک أخبرنا نافع قال:رمیت طائرین بحجر،وأنا بالجرف،فأصبتھما،فأما أحدھما فطرحہ عبد اللّٰه بن عمر،وأما الآخر فذھب عبد اللّٰه یذکیہ بقدوم فمات قبل أن یذکیہ فطرحہ أیضاً۔قال محمد:وبھذا نأخذ،ما رمي بہ الطیر فقتل بہ قبل أن تدرک ذکاتہ لم یؤکل إلا أن یخزق أو یبضع،فإذا خزق أو بضع فلا بأس بأکلہ،وھو قول أبي حنیفۃ والعامۃ من فقھائنا‘‘[2] انتھیٰ
[نافع نے کہا:میں نے دو پرندے ایک پتھر سے شکار کیے۔ایک مر گیا،ایک زندہ تھا۔عبداﷲ بن عمر نے مردہ کو پھینک دیا اور زندہ کو ذبح کرنے لگے تو وہ بھی ذبح کرنے سے پہلے مر گیا تو انھوں نے اسے بھی پھینک دیا۔امام محمد نے کہا:اگر جانور کو پتھر سے مارا جائے تو اگر زندہ مل جائے تو اسے ذبح کر لو اور اگر مر گیا ہو تو اسے پھینک دو۔امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہا کا یہی مذہب ہے]
سبل السلام میں ہے:
’’والحدیث (أي حدیث المعراض) إشارۃ إلیٰ آلۃ من آلات الاصطیاد،وھي المحدد،فإنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم أخبرہ أنہ إذا أصاب بحد المعراض أکل،فإنہ محدد،وإذا أصاب بعرضہ فلا یأکل،وفیہ دلیل أنہ لا یحل صید المثقل،وإلیٰ ھذا ذھب مالک والشافعي وأبو حنیفۃ وأحمد و الثوري،وذھب الأوزاعي ومکحول وغیرھما من علماء الشام إلیٰ أنہ یحل صید المعراض مطلقا۔۔۔إلی قولہ:ومن فرق بین ما خزق من ذلک وما لم یخزق،نظر إلیٰ حدیث عدي ھذا،وھو الصواب‘‘[3] انتھیٰ،واللّٰه أعلم بالصواب۔
[اوزاعی،مکحول اور شامی علما معراض کے شکار کو مطلقاً حلال کہتے ہیں،خواہ خون نکلے یا نہ نکلے،جبکہ امام مالک،شافعی،ابو حنیفہ،احمد اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر اپنی تیزی سے خون نکال کر مارے تو جائز ہے،ورنہ حرام ہے اور یہی صحیح ہے]
[1] نیل الأوطار (۹/ ۱۲)
[2] موطأ الإمام محمد (۲/ ۶۲۰)
[3] سبل السلام (۴/ ۸۴)