کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 467
إنا نرمي بالمعراض؟ قال:کل ما خزق،وھو بفتح المعجمۃ والزاي بعدھا قاف أي نفذ۔یقال:سھم خازق أي نافذ،وحاصلہ أن السھم وما في معناہ إذا أصاب الصید بحدہ حل،وکانت تلک ذکاتہ،وإذا أصابہ بعرضہ لم یحل،لأنہ في معنیٰ الخشبۃ الثقیلۃ والحجر ونحو ذلک من الثقل،وقولہ:بعرضہ أي بغیر طرفہ المحدد،وھو حجۃ للجمھور في التفصیل المذکور،وعن الأوزاعي وغیرہ من فقھاء الإسلام حل ذلک‘‘[1] انتھیٰ ملخصاً۔
[معراض کی تعریف میں اختلاف ہے،بعض نے کہا ہے کہ بھالے اور پر کے بغیر تیر کو معراض کہا جاتا ہے،کچھ کے نزدیک لمبے تیر کو کہا جاتا ہے،کچھ کے نزدیک چوڑے بھالے کو کہا جاتا ہے۔وہ ایک ایسی ثقیل لکڑی ہے،جس کا ایک سرا تیز اور باریک ہوتا ہے،بعض کے نزدیک اس کے دونوں سرے باریک ہوتے ہیں اور درمیان سے موٹی لکڑی ہوتی ہے،اس لکڑی کو پھینکتے سے دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں:اگر اس کی دھار شکار کے جسم میں داخل ہو جائے اور اسے زخمی کر دے اور خون نکل کر جانور مرے تو وہ حلال ہے،بشرطیکہ اس کو پھینکتے وقت اﷲ کا نام لیا ہو اور اگر لکڑی دھار کی طرف سے نہ لگے بلکہ چوڑائی کی طرف سے لگے یعنی شکار چوٹ کی شدت سے مرے اور خون نہ نکلے تو وہ جانور حرام ہے،یہی اصول تمام چیزوں کے شکار میں ہے اور جمہور کا یہی مذہب ہے]
منتقی الاخبار میں ہے:
’’عن عدي قال:قلت:یا رسول اللّٰه إنا قوم نرمي فما یحل لنا؟ قال:یحل لکم ما ذکیتم،وما ذکرتم اسم اللّٰه علیہ وخزقتم فکلوا منہ۔رواہ أحمد،وھو دلیل علیٰ أن ما قتلہ السھم بثقلہ لا یحل‘‘[2] انتھیٰ
[عدی نے عرض کی:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شکاری لوگ ہیں،کون سا شکار حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر وہ شکار حلال ہے،جس پر تم اﷲ کا نام لے کر تیر پھینکو اور اپنی تیزی سے خون نکال کر اسے مار دے اور اگر ایسا نہ ہو تو اگر جانور زندہ مل جائے تو ذبح کر لو اور اگر چوٹ سے مر جائے اور خون نہ نکلے تو وہ حرام ہے]
نیز اسی کتاب میں ہے:
’’عن إبراھیم عن عدي بن حاتم قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:إذا رمیت فسمیت فخزقت فکل،وإن لم تخزق فلا تأکل من المعراض إلا ما ذکیت،ولا تأکل من البندقۃ إلا ما ذکیت۔رواہ أحمد،وھو مرسل،إبراھیم لم یلق عدیا۔قال الشوکاني في النیل:وإن کان مرسلا کما ذکرہ،لکن معناہ صحیح ثابت عن عدي في الصحیحین،وقال:قولہ:
[1] فتح الباري (۹/ ۶۰۰)
[2] نیل الأوطار (۹/ ۹)