کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 465
ما سوائے چند لوگوں کے علما کا اتفاق ہے کہ بندوق یا پتھر سے مرا ہوا جانور حرام ہے،کیوں کہ وہ شکار کو پھینکنے والے کی طاقت سے مارتا ہے نہ کہ اپنی تیزی کی وجہ سے]
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح میں لکھتے ہیں:
’’باب صید المعراض،وقال ابن عمر في المقتولۃ بالبندقۃ:تلک الموقوذۃ،وکرھہ سالم والقاسم ومجاھد وإبراھیم وعطاء والحسن،وکرہ الحسن رمي البندقۃ في القریٰ والأمصار،ولا یری بہ بأسا فیما سواہ‘‘[1]
[بندوق یا غلیل کے شکار کے متعلق حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:یہ چوٹ سے مرنا ہے،لہٰذا حرام ہے۔سالم،قاسم،مجاہد،ابراہیم،عطا اور حسن اس کو مکروہ کہتے ہیں۔حسن بستیوں اور شہروں میں غلیلہ مارنے کو مکروہ کہتے ہیں،البتہ جنگل میں جائز ہے]
پھر اس باب میں عدی بن حاتم کی یہ حدیث ذکر کی ہے:
’’سألت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن المعراض فقال:إذا أصبت بحدہ فکل،وإذا أصاب بعرضہ فقتل فإنہ وقیذ فلا تأکل‘‘[2] الحدیث۔
[عدی بن حاتم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے معراض کے متعلق پوچھا (معراض وہ چپٹا آلہ (بھالا) ہے،جسے شکار کی طرف پھینکا جائے) آپ نے فرمایا:اگر وہ اپنی دھار سے شکار کو زخمی کر کے مارے تو اسے کھا لو اور اگر اپنی چوڑائی سے مارے تو اسے نہ کھاؤ]
علامہ شوکانی ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’المراد بالبندقۃ ھي التي تتخذ من طین وتیبس فیرمیٰ بھا‘‘[3]
[بندقہ غلیلہ کو کہتے ہیں،جو مٹی اور روئی وغیرہ سے تیار کیا جاتا ہے]
حافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۲۳/ ۲۸۷) میں لکھتے ہیں:
’’أما أثر ابن عمر فوصلہ البیھقي من طریق أبي عامر العقدي عن زھیر،ھو ابن محمد،عن زید بن أسلم عن ابن عمر أنہ کان یقول:المقتولۃ بالبندقۃ تلک الموقوذۃ،وأخرج ابن أبي شیبۃ من طریق نافع عن ابن عمر أنہ کان لا یأکل ما أصابت البندقۃ،ولمالک في الموطأ عن نافع:رمیت طائرین بحجر فأصبتھما،فأما أحدھما فمات فطرحہ ابن عمر،وأما سالم،
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۱۵۹)
[2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۱۵۹)
[3] نیل الأوطار (۹/ ۱۲)