کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 462
کہا:یعنی جس پر غیر اﷲ کا نام لیا جائے] سید محمد نذیر حسین هو الموافق جیسا کہ آیاتِ مذکورہ بالا سے سانڈ کی حلت ثابت ہوتی ہے،اسی طرح صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ثابت ہوتی ہے: ’’عن عیاض بن حمار المجاشعي أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال ذات یوم في خطبۃ:(( ألا! إن ربي أمرني أن أعلمکم ما جھلتم مما علمني یومي ھذا،کل مال نحلتہ عبدا حلال لہ،وإني خلقت عبادي حنفاء کلھم،وإنھم أتتھم الشیاطین فاجتالتھم عن دینھم،وحرمت علیھم ما أحللت لھم )) [1] الحدیث۔کذا في المشکاۃ (ص:۴۵۱) [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے میں فرمایا:مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ جو چیزیں تم نہیں جانتے،وہ میں تم کو سکھلا دوں،ہر وہ مال جو میں کسی بندے کو بخش دوں،وہ اس پر حلال ہے،میں نے اپنے تمام بندوں کو دینِ حنیف پر پیدا کیا ہے،پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیر دیا اور جو چیزیں میں نے ان پر حلال کی تھیں،اس نے ان پر حرام کر دیں ] شیخ عبدالحق محدث دہلوی لمعات شرح مشکات میں لکھتے ہیں: ’’قولہ:حلال لہ۔لا یستطیع أحد أن یحرمہ من تلقاء نفسہ،وھو إنکار لما حرموا علی أنفسھم من البحیرۃ والسائبۃ والوصیلۃ‘‘انتھیٰ [یعنی حلال کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی ان کو حرام نہیں کہہ سکتا،اس میں ان لوگوں کا رد ہے،جنھوں نے اپنے اوپر بحیرہ،سائبہ وغیرہ کو حرام کر لیا] اس حدیث اور آیاتِ مذکورہ بالا کے ظاہر سے ثابت ہوتا ہے کہ سانڈ فی نفسہ حلال ہے،آیت {مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} کے ظاہر سے ثابت ہوتا ہے کہ سانڈ فی نفسہ حرام ہے،انھیں دلائلِ مختلفہ کی وجہ سے سانڈ کی حلت و حرمت میں علما کی رائیں مختلف واقع ہوئی ہیں۔بعض سانڈ کی حرمت کے قائل ہوئے ہیں اور بعض سانڈ کو حلال طیب بتاتے ہیں۔فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کی دلیل کی تاویل کرتا ہے،اس قسم کے مسائل میں اہلِ علم کو نہایت تحقیق اور غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور پھر جو حق معلوم ہو،اس پر عمل کرنا چاہیے اور فریقِ مخالف پر طعن نہیں کرنا چاہیے۔اللّٰهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۸۶۵)