کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 460
’’ما جعل اللّٰه من بحیرۃ أي ما شرع ذلک ولا أمر بالتبحیر‘‘[1] [یعنی اﷲ تعالیٰ نے تو بحیرہ،سائبہ وغیرہ کا حکم نہیں دیا] نیز اس میں ہے: ’’ولکن الذین کفروا یفترون علی اللّٰه الکذب في تحریمھم ھذہ الأنعام‘‘[2] مدارک میں ہے: ’’ومعنی ما جعل:ما شرع ذلک وما أمر بہ،ولکن الذین کفروا بتحریمھم ما حرموا یفترون علی اللّٰه الکذب في نسبتھم ھذا التحریم إلیہ‘‘[3] [جامع البیان اور مدارک میں ہے کہ کافر جو ان چیزوں کے حرام کرنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں،یہ اﷲ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں ] الحاصل سانڈ کی حلت پر یہ آیتیں صاف دلالت کرتی ہیں،پس سانڈ کے فی نفسہ حلال ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ہے،پس اس سانڈ کے ساتھ اگر اس کے چھوڑنے والے کا حق متعلق ہے اور راضی نہیں ہے کہ اس کے چھوڑے ہوئے سانڈ کو کوئی پکڑ کر کھائے،بلکہ وہ اس سے مانع ہے تو اس صورت میں اس سائبہ کا کھانا جائز نہیں ہے بوجہ تعلق حق غیر کے،لیکن اگر اس سانڈ کے ساتھ اس کے چھوڑنے والے کا حق متعلق نہیں ہے اور اس نے اجازت دے دی ہے کہ جو شخص چاہے میرے اس چھوڑے ہوئے سانڈ کو پکڑ کر کھائے تو اس صورت میں اس سانڈ کا کھانا بلاشبہہ جائز ہے،الغرض جیسے تمام حلال چیزیں بوجہ تعلق حق غیر کے بلا اجازت اس کے دوسرے کے حق میں حرام ہوتی ہیں اور اس کی اجازت سے حلال؛ اسی طرح سانڈ بھی بوجہ تعلق حق غیر کے بلا اجازت اس کے دوسرے کے حق میں حرام ہے اور اس کی اجازت سے حلال۔اگر کوئی کہے کہ جب سانڈ غیر اﷲ کے نام پر چھوڑا گیا تو بمجرد غیر اﷲ کے نام پر چھوڑے جانے ہی سے وہ حرام ہوگیا اور {مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} [البقرۃ:۱۷۳] میں داخل ہوگیا اور وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا،اب وہ نہ چھوڑنے والے کی اجازت سے حلال ہوسکتا ہے اور نہ اﷲ کے نام پر ذبح ہونے سے درست تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ کسی جانور کا غیر اﷲ کے نام پر چھوڑنا صریح کفر و شرک ہے اور اس کا چھوڑنے والا بلاشبہہ مشرک ہے،مگر بمجرد اس شرک کے کام سے وہ جانور حرام نہیں ہوجاتا،جیسا کہ آیات مذکورہ بالا سے واضح ہوا اور سانڈ {مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} میں داخل نہیں ہے،اس لیے کہ {مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ} سے یا تو وہ جانور مراد ہے،جس پر ذبح کرنے کے وقت غیر اﷲ کا نام ذکر کیا جائے،یا وہ جانور مراد ہے جو غیر اﷲ کی تعظیم پر ذبح کیا جائے۔
[1] جامع البیان (ص:۲۶۴) [2] مصدر سابق۔ [3] مدارک التنزیل (۱/۹۹)