کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 458
پس جب یہ آیت سائبہ وغیرہ کے حرام ٹھہرانے والوں کی شان میں نازل ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ سائبہ وغیرہ کو حرام ٹھہرانا سخت گناہ اور اﷲ پر جھوٹ باندھنا ہے اور سائبہ وغیرہ کو حلال ٹھہرانا اور اس کے کھانے کو درست جاننا فرض ہے۔ ازاں جملہ ایک یہ آیت ہے: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ} [ البقرۃ:۱۶۸] [اے لوگو! کھاؤ زمین کی چیزوں میں سے جو حلال طیب ہے اور مت پیروی کرو شیطان کے قدموں کی] مفسرین نے یہاں بھی لکھا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کی شان میں نازل ہوئی ہے جنھوں نے سانڈ وغیرہ کو حرام ٹھہرا لیا تھا۔ 1۔جمل حاشیہ جلالین میں ہے: ’’قولہ:ونزل في من حرم السوائب ونحوھا أي کالبحائر والوصائل والحوامي۔قالہ ابن عباس وھو المشھور‘‘[1] [یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے،جنھوں نے بحیرہ،سائبہ،وصیلہ اور حام وغیرہ کو حرام ٹھہرا لیا۔حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے] 2۔جامع البیان میں ہے: ’’ونزلت في قوم حرموا علیٰ أنفسھم السوائب والوصائل والبحائر‘‘[2] 3۔مدارک میں ہے: ’’ونزل فیمن حرموا علیٰ أنفسھم البحائر ونحوھا‘‘[3] [مدارک اور جامع البیان وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ یہ ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے،جنھوں نے بحیرہ،سائبہ وغیرہ کو اپنے اوپر حرام کیا] اسی طرح تفسیر کبیر اور ابو السعود وغیرہما میں بھی مذکور ہے۔[4] پس جب یہ آیت بھی سائبہ وغیرہ کے حرام ٹھہرانے والوں کی شان میں نازل ہوئی ہے تو اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ سانڈ کو حرام ٹھہرانا گناہ اور حلال جاننا ضروری ہے۔ ازاں جملہ ایک آیت یہ ہے: {مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْم بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّ لَا حَامٍ وَّ لٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی
[1] حاشیہ الجمل علی الجلالین (۱/۱۶۱) [2] جامع البیان (ص:۷۹) [3] مدارک التنزیل للنسفي (۱/ ۹۹) [4] التفسیر الکبیر (۱/۱۷۹) تفسیر أبي السعود (۱/۱۸۷)