کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 456
اس حدیث میں جو وعید ہے،اگرچہ قضا علی جہل میں وارد ہے،یعنی اس قاضی کے بارے میں جو حق و ناحق کی تحقیق نہیں کرتا اور یوں ہی انڈ کا سنڈ فیصلہ کر دیا کرتا ہے،لیکن اصل معصیت جو مناطِ وعید ہے،یعنی بلا تحقیق حق و ناحق کے ایک جانب کا طرفدار ہوجانا،یہ امر اس قضا اور صورتِ ثالثہ وکالت دونوں میں مشترک ہے تو ناجوازی کا حکم بھی دونوں میں مشترک ہو گا۔روایتِ بیہقی:(( من أعان علی خصومۃ لا یدري أحق أم باطل،فھو في سخط اللّٰه حتی ینزع )) [1] (مشکوۃ شریف باب الحدود فصل ثاني) [جس نے کسی جھگڑے پر اعانت کی جب کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ حق ہے یا باطل تو وہ اﷲ کی ناراضی میں رہتا ہے،حتی کہ وہ اس سے دست کش ہوجائے] کی بالخصوص صحت یا عدمِ صحت معلوم نہیں،کیونکہ بیہقی یہاں موجود نہیں ہے کہ اس میں اس کی سند دیکھ کر کچھ حکم لگایا جائے،لیکن اس کے مضمون کی تائید دوسرے اور دلائل سے بخوبی ہوجاتی ہے اور جس صورت میں کہ وکیل نے اولاً حتی الوسع اس امر کی تحقیقات کر لیں کہ مدعی و مدعا علیہ میں سے کون شرعاً برسرِ حق ہے،تب اس کی وکالت قبول کی تو یہ وکالت پہلی قسم میں داخل ہو گی،یعنی یہ صورت وکالت کی جائز ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔الجواب صحیح۔کتبہ:أبو العلی محمد عبد الرحمن المبارکفوري،مہر مدرسہ۔(۵/ دسمبر ۹۳ھ) [2]
[1] شعب الإیمان (۷/۵۱۰) اس کی سند میں رجا ابو یحییٰ جرشی ضعیف ہے۔ [2] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری،(ص:۶۴۰)