کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 452
جواب:فقہا جو کہتے ہیں کہ ہبہ میں قبضہ شرط ہے،جب تک معطی لہ کا قبضہ نہ ہو،مالک نہیں ہو سکتا،اس کی اصل ذیل کی روایات ہیں۔موطا امام مالک (ص:۳۱۴) میں ہے: ’’مالک عن ابن شھاب عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنھا قالت:إن أبا بکر الصدیق کان نحلھا جاد عشرین وسقا من مالہ بالغابۃ فلما حضرتہ الوفاۃ قال:واللّٰه یا بنیۃ ما من الناس أحد أحب إلی غني بعدي منک،ولا أعز علي فقراً بعدي منک،وإني کنت نحلتک جاد عشرین وسقا فلو کنت جددتیہ و احتزتیہ کان لک،وإنما ھو الیوم مال وارث،وإنما ھما أخواک و أختاک فاقتسموہ علی کتاب اللّٰه۔قالت عائشۃ:فقلت:یا أبت واللّٰه لو کان کذا وکذا لترکتہ،إنما ھي أسماء،فمن الأخری؟ قال:ذو بطن ابنۃ خارجۃ،أراھا جاریۃ۔ مالک عن ابن شہاب عن عروۃ بن الزبیر عن عبدالرحمن بن عبد القاري أن عمر بن الخطاب قال:ما بال رجال ینحلون أبناء ھم نحلا،ثم یمسکونھا،فإن مات ابن أحدھم قال:مالي بیدي،لم أعطہ أحداً،وإن مات ھو قال:ہو لابني،قد کنت أعطیتہ إیاہ،من نحل نحلۃ فلم یحزھا الذي نحلھا حتی یکون ان مات لورثتہ فھي باطل‘‘[1] حافظ ابن حجر تخریجِ ہدایہ (ص:۳۰۳) میں لکھتے ہیں: ’’قولہ:قال صلی اللّٰه علیہ وسلم:لا تجوز الہبۃ إلا مقبوضۃ۔لم أجدہ،وھو في أخر الوصایا من مصنف عبد الرزاق عن إبراھیم النخعي۔قولہ:وفي الباب قول أبي بکر لعائشۃ:وإني کنت نحلتک جاد عشرین وسقا فلو کنت احتزتیہ کان لک،وإنما ھو الیوم مال الوارث۔أخرجہ مالک و عبدالرزاق،وفیہ قول عمر:لا تحل إلا لمن حازہ وقبضہ۔أخرجہ عبدالرزاق بإسناد صحیح‘‘[2] انتھی واللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ قرض سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے: سوال:ہمارے ملک میں دھان پوس و ماگھ کے مہینے میں اگر ایک من رکھا جائے تو کاتک یا ساون میں سوکھ کر تقریباً ۴ سیر کم ایک من ہوتا ہے،یعنی تقریباً ۴ سیر کم ہو جاتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ پوس میں دھان کاٹا جاتا ہے،اس
[1] موطأ الإمام مالک (۱۴۳۸،۱۴۳۹) [2] دیکھیں:مصنف عبد الرزاق (۹/ ۱۰۲)