کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 449
’’قال المغیرۃ عن إبراھیم:ترکب الضالۃ بقدر علفھا،وتحلب بقدر علفھا،والرھن مثلہ‘‘[1] [گم شدہ جانور پر سواری بھی چارے کے عوض کی جائے گی اور دودھ والے جانور کا دودھ بھی چارے کے عوض پیا جائے گا اور رہن کا بھی یہی حکم ہے] في الفتح:’’قولہ:والرھن مثلہ أي في الحکم المذکور،وقد وصلہ سعید بن منصور بالإسناد المذکور،ولفظہ:الدابۃ إذا کانت مرھونۃ ترکب بقدر علفھا،وإذا کان لھا لبن یشرب منہ بقدر علفھا۔ورواہ حماد بن سلمۃ في جامعہ عن حماد بن أبي سلیمان عن إبراھیم بأوضح من ھذا،ولفظہ:إذا ارتھن شاۃ شرب المرتھن من لبنھا بقدر ثمن علفھا فإن استفضل من اللبن بعد ثمن العلف فھو ربا‘‘[2] انتھیٰ [حافظ نے فتح الباری میں کہا ہے کہ مثلاً اگر مرتہن کے پاس دودھ دینے والی بکری رہن رکھے تو مرتہن کو چارے کی قیمت کے برابر اس کا دودھ لینا جائز ہوگا،اگر زیادہ لے گا تو سود ہوگا] دوسری بات یہ ہے کہ سوائے سواری اور دودھ کے جانور کے کسی اور شے مرہون سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے،بلکہ اس کی ممانعت ثابت ہے۔منتقیٰ میں ہے: ’’عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( لا یغلق الرھن من صاحبہ الذي رھنہ،لہ غنمہ وعلیہ غرمہ )) [3] رواہ الشافعي والدارقطني،وقال:ھذا إسناد حسن متصل۔قال في نیل الأوطار:وقولہ:لہ غنمہ وعلیہ غرمہ۔فیہ دلیل لمذھب الجمھور المتقدم۔۔۔وقال فیما تقدم:قال الشافعي وأبو حنیفۃ ومالک وجمھور العلماء:لا ینتفع المرتھن من الرھن بشییٔ،بل الفوائد للراھن والمئون علیہ۔۔۔لأن الشارع قد جعل الغنم والغرم للراھن‘‘[4] انتھیٰ [نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رہن راہن سے روکا نہیں جاسکتا،اس کا نفع و نقصان راہن کا ہے۔شَے مرہون کا نفع نقصان راہن کا ہے،اس میں جمہور کے مذہب کی دلیل ہے،امام شافعی،ابو حنیفہ،مالک اور جمہور علما نے کہا ہے:مرتہن رہن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا،تمام نفع و نقصان راہن کا ہے،اس لیے کہ شریعت نے نفع و نقصان راہن کا رکھا ہے]
[1] صحیح البخاري (۲/ ۸۸۷) [2] فتح الباري (۵/ ۱۴۴) [3] مسند الشافعي (۷۱۷) سنن البیھقي (۶/ ۳۹) [4] نیل الأوطار (۵/ ۲۹۱)