کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 443
شریک کے اپنے اس دوسرے کاروبار کرنے کی وجہ سے شرکت کے کاروبار میں کسی قسم کا حرج و نقصان واقع ہوا ہو تو اُس نفع و نقصان کا تاوان اس شریک کو دینا پڑے گا اور اس سے وصول کرکے سرمایہ شرکت میں جمع کرنا چاہیے،ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم کتبہ:عبدالرحمن المبارکفوري،عفي عنہ مشترکہ جائداد کی تقسیم اور کاروبار میں زیادہ محنت کرنے والا بیٹا: سوال:شیخ مظہر علی کے چار بیٹے:بادل،اعظم،بندھو،حافظ رمضان علی ہیں۔مظہر علی نے قضا کیا،ان چاروں بیٹوں میں سے ایک (حافظ رمضان علی) نے اپنے باپ مظہر علی کے وقت میں خاص کما کر کچھ روپیہ الگ جمع کیا اور اپنے باپ کو باوجود ضرورتوں کے نہ دیا۔اب اس روپے میں دوسرے بھائی لوگ دعویدار ہیں کہ اس روپے کو ملا کر مظہر علی متوفی کا ترکہ قرار دیں اور باخودہا تقسیم کریں۔ازروئے شرع شریف اس خاص روپے میں رمضان علی کے دوسرے بھائی حصہ پائیں گے یا نہیں ؟ جواب:مورث جس مال کا مالک ہوتا ہے،اسی میں وارثوں کا حق اور حصہ ہوتا ہے،پس جب حافظ رمضان علی نے اپنا حاصل کردہ روپیہ اپنے باپ مظہر علی کو نہیں دیا تو وہ روپیہ مظہر علی کی ملک میں نہیں آیا،اس لیے اس روپے میں مظہر علی کے کسی وارث کا حصہ نہیں ہوسکتا۔واللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ:أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔[1] مضارعت و مضاربت میں ایک ناجائز شرط: سوال:ایک شخص صرف دس گھماؤں زمین کاشتکار کو دیتا ہے،بیج بیل وغیرہ کوئی نہیں دیتا ہے اور پیداوار سے نصف لے لیتا ہے اور دس روپیہ بھی ساتھ لے لیتا ہے،یعنی جتنے گھماؤں کاشت کار کو دیتا ہے،اتنے ہی روپے لے لیتا ہے اور ما حصل سے نصف بھی۔آیا یہ فی گھماؤں ایک روپیہ نصف کے ساتھ لینا جائز ہے یا نہیں ؟ شرط پہلے مالک زمین مقرر کر لیتا ہے۔ جواب:صورتِ مسئولہ میں نصف پیداوار کے ساتھ باقی فی گھماؤں ایک روپیہ بھی لینا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ مضارعت ہے اور مضارعت میں نصف پیداوار کے کسی جزو معلوم،مثلاً نصف یا ربع یا ثلث کے علاوہ کسی اور شے کے لینے کی شرط کرنا اور لینا ثابت نہیں،نہ مالک زمین کے لیے نہ کاشتکار کے لیے،بلکہ اس کا عدمِ جواز ظاہر ہے،کیونکہ مضارعت از قبیل مضاربت ہے اور مضاربت میں ربح کے کسی جزو معلوم،مثلاً نصف یا ربع یا ثلث کے علاوہ کسی اور شے کے لینے کی شرط کرنا اور لینا جائز نہیں ہے۔ سنن نسائی (ص:۶۱۲) میں ہے:
[1] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۷۳۷)