کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 442
جواب:اگر زید ملازم کو اس ملازمت کے اندر اپنے کسی دوسرے کاروبار کے الگ جاری کرنے کی اس کے مالک عمرو کی طرف سے اجازت نہیں تھی تو صورتِ مرقومہ میں اس ملازم کا یہ فعل شرعاً ہر گز جائز و درست نہیں ہے اور اس ملازم کو اپنا ایک الگ کام جاری کرنے کا ہرگز حق حاصل نہیں تھا،اس ملازم نے اس ملازمت کے اندر اپنے اس دوسرے کاروبار کے جاری کرنے کی وجہ سے جس قدر نفع اور فائدہ حاصل کیا ہے،وہ بطریق ناجائز حاصل کیا ہے اور چونکہ اس ملازم نے اس نفع کو خود اپنے روپے سے حاصل کیا ہے،اس لیے اس نفع کا مالک وہی ملازم ہے،اس کا مالک عمرو نہیں ہوسکتا،ہاں اس ملازم کے فعل سے عمرو کے کاروبار تجارت میں جس قدر حرج (کذا) اور نقصان ہوا ہو،عمرو اس قدر تاوان اس ملازم سے شرعاً وصول کر سکتا ہے۔ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔ حالتِ شراکت میں ایک فریق کا بلا اجازت نیا کاروبار شروع کر لینا: سوال:کیا فرماتے ہیں علماے دین و حامیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ زید اور عمرو شراکت میں ایک کاروبار کرتے ہیں۔ایسی حالت میں ایک شریک دار بحالتِ شرکت اور بلا اجازت اپنے دوسرے شریک دار کے ایک اپنا خاص دوسرا کاروبار کرنے لگا،یعنی جب شرکت کا مال خریدنے جاتا تو اس کے ساتھ اس شرکت کے خرچ سے اپنا خاص مال بھی لانے اور بھیجنے لگا اور اس ذریعے سے فائدہ حاصل کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فعل ایک شریک دار کا شرعاً جائز و درست ہے اور کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ بحالتِ شرکت محض اپنے فائدے کی غرض سے بلا اجازت اپنے دوسرے شریک دار کے اپنا خاص کام بھی کر لے اور اس ذریعے سے الگ فائدہ اٹھائے؟ در صورت ناجائز ہونے کے وہ مال جو بحالتِ شرکت چالاکی سے ایک نے بطور خود حاصل کیا ہے،وہ مال دونوں شریک داروں کا حق ہو گا یا نہیں ؟ اس کے فیصلے کی کیا صورت ہے؟ جواب مع دلیل از قرآن و حدیث صاف صاف آنا چاہیے۔سائل:حاجی سالار الدین عفا عنہ چکر دھرپور مورخہ ۱۵/ شعبان المعظم ۳۳۸ ۱ھ؁ جواب:صورتِ مسئولہ میں اگر زید اور عمرو دونوں شریکوں میں سے کسی کو اس امر کی اجازت نہیں تھی کہ بحالتِ شرکت بلا اجازت اپنے دوسرے شریک کے اپنا کوئی خاص کاروبار جاری کرے تو بلاشبہہ ایک شریک کا یہ فعل شرعاً جائز و درست نہیں ہے اور ہرگز اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بحالتِ شرکت بلا اجازت اپنے دوسرے شریک کے اپنا کوئی خاص کاروبار جاری کرے۔اس شریک نے اپنے اس فعل کی وجہ سے جو کچھ نفع و فائدہ حاصل کیا ہے،وہ بطریق ناجائز حاصل کیا ہے اور چونکہ اس شریک نے خاص اپنے روپے سے اپنا دوسرا کاروبار جاری کیا ہے،اس لیے اس نفع و فائدے کا مالک یہی شریک ہوگا اور دوسرے شریک کا اس میں کچھ حق نہیں ہے،ہاں اگر اس